تاریخ مجاہدینِ اسلام

Description
السلام علیکم ورحمته اللّٰه وبرکاته

تقریباً پچھلے دو سال سے وہاٹس ایپ اور ٹیلیگرام پر تاریخ مجاہدین اسلام کے نام سے ہمارے گروپ ہیں جس میں سبق آموز واقعات اسلامی تاریخ کے نامور شخصیات و مجاہدین کی سوانح حیات و خدمات پر مظامین بھیجے جاتے ہیں
Advertising
We recommend to visit


‌بزرگ ترین‌ چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
‌‌
راه ارتباطی ما: @WatchCarton_bot

Last updated 3 weeks ago

وانهُ لجهادٍ نصراً او إستشهاد✌️

Last updated 1 year, 1 month ago

⚫️ Collection of MTProto Proxies ⚫️

🔻Telegram🔻
Desktop v1.2.18+
macOS v3.8.3+
Android v4.8.8+
X Android v0.20.10.931+
iOS v4.8.2+
X iOS v5.0.3+


🔴 تبليغات بنرى
@Pink_Bad

🔴 تبلیغات اسپانسری
@Pink_Pad

Last updated 1 week, 4 days ago

3 months ago

خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے محسوس نہ کیا کہ اس نے اسلام کو ہتھکڑیاں ڈال دی ہیں، اور اب اسلام اس سے آگے نہیں بڑھ سکے گا جہاں تک اسے محمد بن قاسم نے پہنچایا ہے۔ محمد بن قاسم کے سالار اور سپاہی حاکم اور محکوم دیکھ رہے تھے، اور ان کے آنسو بہہ رہے تھے،،،،محمد بن قاسم نے سب پر نگاہ ڈالی اور بلند آواز سے عربی کا ایک شعر کہا۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
انہوں نے مجھے ضائع کردیا ہے، اور کیسے جوان کو ضائع کیا ہے جو مرد میدان تھا، سرحدوں کا محافظ تھا۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
محمد بن قاسم کو اعراق لے گئے، خلیفہ سلیمان بن عبدالملک اس کے سامنے نہ آیا، خراج کے حاکم صالح بن عبدالرحمن نے حکم دیا کہ اسے واسطہ کے قید خانے میں قید کر دو، جہاں اس کے اور حجاج کے خاندان اور قبیلے کے آدمی قید ہیں۔
قید خانے کے دروازے میں کھڑے ہو کر محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم نے مجھے واسطہ میں قید کردیا اور زنجیر ڈال کر مجھے بیکار کر دیا تو کیا ہوا، مجھ سے یہ اعجاز تو نہیں چھین سکو گے کہ وہ میں ہی ہوں جس نے شہسواروں کے دلوں پر دہشت طاری کی اور دشمنوں کو قتل کیا ہے۔
محمد بن قاسم کے آخری الفاظ یہ تھے۔
آئے زمانے تجھ پر افسوس ہے تو شریفوں کے لئے خائن ہے۔
قید خانے میں محمد بن قاسم کو اذیتیں دی جانے لگیں، اور وہ برداشت کرتا رہا، قبیلہ عکسہ کے ایک آدمی کو محمد بن قاسم پر نگرانی کے لئے مقرر کیا گیا تھا ،جو اسے ہر وقت کسی نہ کسی اذیت میں مبتلا رکھتا تھا، سلیمان ہر روز اس کے مرنے کی خبر کا انتظار کرتا تھا ،آخر اس نے آخری اشارہ دے دیا۔
صالح بن عبدالرحمن نے محمد بن قاسم کو قید خانے میں ہی آل عقیل کے حوالے کردیا ،ان لوگوں نے محمد بن قاسم کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا ،وہ تو اب زندہ لاش بن چکا تھا۔
ایک روز ال عقیل نے اسے اس قدر زود و کوب کیا کہ سندھ کے نامی گرامی جنگجو پر ہیبت طاری کر دینے والا عظیم فاتح انتقال کر گیا۔
اناللہ و انا الیہ راجعون
اس وقت اس کی عمر بائس سال تھی، دین کے دشمنوں سے ہتھیار ڈلوا نے والا اپنوں کے ہاتھوں ختم ہوگیا ،محمد بن قاسم کی لاش دیکھ کر ایک شاعر حمزہ بن بیض حنفی نے شعر کہے۔
یہ تو مروّت،دل کی مضبوطی اور فیاضی کا پیکر تھا ،جس نے سترہ سال کی عمر میں لشکروں کی قیادت کی، یہ تو تو پیدائشی قائد تھا۔

ایک اور شاعر نے کہا ۔

اس نے سترہ سال کی عمر میں مردان کارزار کی سرداری کی ۔
اسکی عمر کے لڑکے ابھی گلیوں میں کھیل رہے تھے۔

وہ چمکتا ہوا ستارہ تھا جو جلد ہی ٹوٹ گیا ،
یہاں سے اقتدار کی سیاست چلی، اقتدار جس کے ہاتھ میں آیا اس نے مخالفین کو قتل، گرفتار اور ذلیل و خوار کیا،،،،،، یہ سیاست آج تک چل رہی ہے اور اسلام کا ستارہ مصنوعی ستارہ بن کر خلا میں بھٹک رہا ہے ۔
<========۔======>
*----------۔--اختتام-------------

3 months ago

ابن قاسم!،،،،، بلال نے کہا۔۔۔ اگر تو زندہ رہنا چاہتا ہے تو خودمختاری کا اعلان کر دے ،یہ اتنا بڑا ملک جو تو نے فتح کیا ہے اس کا مختار کل بن جا، اور اسے خلافت سے آزاد کردے، اپنی سلطنت بنا لے۔
ہوا کیا ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ وہاں کے حالات کیسے ہیں۔
یہ پوچھو کہ وہاں کیا نہیں ہوا ۔۔۔بلال بن ہشام نے کہا ۔۔۔وہاں سلیمان بن عبدالملک کی تلوار چل رہی ہے ،مرحوم خلیفہ اور مرحوم حجاج کے جتنے بھی حامی اور ساتھی تھے ان میں سے زیادہ تر کو سلیمان نے قتل کروا دیا ہے، اور باقیوں کو عہدوں سے معزول کرکے ان پر ایسے جھوٹے الزام لگائے ہیں کہ وہ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں، جس کی طرف اشارہ کر کے کہہ دو کہ یہ حجاج کا ساتھی تھا ،اسے سلیمان قتل کروادیتا ہے،،،،،،، اور ابن قاسم!،،،، سلیمان ایسا باؤلا ہو گیا ہے کہ اس نے چین کی فاتح قتیبہ بن مسلم، اور اندلس کے فاتح موسی بن نصیر، کو گرفتار کرکے بیڑیاں ڈال دی ہیں، ان کے خاندان کو اس نے بھکاری بنا دیا ہے، میں نے سنا ہے کہ ان دونوں فاتحین کو وہ ذلیل و خوار کرکے مارے گا، بعد میں ایسے ہی ہوا تھا، سلیمان نے موسی بن نصیر کو مکہ بھیج دیا اور اسے مجبور کیا تھا کہ وہ عمرہ اور حج کے لیے آنے والوں سے بھیک مانگے۔

سلیمان نے تمام امیر تبدیل کر دیے ہیں ۔۔۔بلال بن ہشام نے کہا ۔۔۔مشرقی ملکوں کا امیر یزید بن مہلب کو بنا دیا ہے، تو شاید جانتا ہوگا کہ یزید بن مہلب کی تیرے خاندان کے ساتھ کتنی پرانی دشمنی ہے، حجاج کا تو وہ جانی دشمن تھا، یزید بن مہلب نے ایک خارجی صالح بن عبدالرحمن کو خراج کے محکمے کا حاکم مقرر کردیا ہے، یہ تمہارے خاندان کا دوسرا دشمن ہے، ان دونوں نے میری موجودگی میں اعلانیہ کہا ہے کہ ہم بنو ثقیف کو خاک میں ملا دیں گے،،،،،،،،،،، ابن قاسم!،،، اب کوئی ثقفی زندہ نہیں رہے گا، تو بھی ثقفی ہے، تیری معزولی کے احکام آرہے ہی، تجھے معلوم ہوگا کہ حجاج نے صالح بن عبد الرحمن کے بھائی کو مروا دیا تھا ،کیونکہ وہ فتنہ پرور خارجی تھا ،اب صالح کہتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے خون کا بدلہ لے گا ،تو اس کا پہلا شکار ہوگا ابن قاسم !،،،معزولی سے پہلے خودمختاری کا اعلان کر دے۔
ہاں ابن قاسم!،،،، شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔سمندر سے سورت تک اپنا جو لشکر پھیلا ہوا ہے وہ سب تیرے ساتھ ہے، اس ملک کے ہندو بھی تیرے ساتھ ہیں، سب تیرے وفادار ہیں ،ہم سب تیرے ساتھ ہیں ،خود مختار ہو جاؤ۔
نہیں !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں خودمختاری کی طرح ڈال دی تو بہت سے ایسے ملک ہیں جہاں مجھ جیسے سالار امیر ہیں وہ بھی خود مختار ہو جائیں گے، پھر سلطنت اسلامیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی ۔
دوسرے سالار بھی آگئے ،انہوں نے بھی محمد بن قاسم سے کہا کہ وہ خودمختاری کا اعلان کر دے اور جب تک سلیمان خلیفہ ہے خلافت سے تعلق توڑے رکھے، لیکن محمد بن قاسم نہیں مانا، وہ کہتا تھا کہ خلافت کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی نہیں کرے گا۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
دمشق میں سلیمان کے حکم سے اس کے مخالفین کا خون بہتا رہا ، حجاج کے خاندان کے افراد کو پہلے عہدوں اور رتبوں سے معزول کیا گیا ،پھر انہیں قتل کرایا جانے لگا، اس خاندان کی مستورات کو بھی نہ بخشا گیا ،پھر محمد بن قاسم کی معزولی کا حکم آ گیا ،اور اس کی جگہ یزید بن کبشہ کو سندھ کا امیر مقرر کیا گیا۔
تاریخوں میں یہ واضح نہیں کہ محمد بن قاسم کے خلاف الزام کیا تھا، الزام عائد کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، یہ خاندانی ،ذاتی اور سیاسی عداوت اور انتقام کا معاملہ تھا ،کیونکہ الزام واضح نہیں اس لئے اسلام دشمن عناصر نے نہایت بہبود الزامات گڑھ کر محمد بن قاسم پر تھوپی ہیں، جن میں وہ بڑی خوبصورت ہندو لڑکیوں کا نمایاں ذکر کیا گیا ہے، اگر محمد بن قاسم پر الزام ہوتا یا اس نے ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہوتا تو اسے گرفتار کرکے قاضی کی عدالت میں پیش کیا جاتا،
ہم ان مفروضوں کا ذکر نہیں کریں گے جو تاریخ کے دامن میں ڈال دیئے گئے ہیں، سندھ کا نیا امیر یزید بن کبشہ سندھ آیا تو مشرقی ممالک کے امیر یزید بن مہلب کا بھائی معاویہ بن مہلب بھی اس کے ساتھ تھا۔
ابن قاسم !،،،،نئے امیر نے آتے ہی حکم دیا۔۔۔ معاویہ بن مہلب تمہیں گرفتار کرکے دمشق لے جائے گا، خلیفہ نے اسے اسی مقصد کے لیے میرے ساتھ بھیجا ہے۔
محمد بن قاسم نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا ۔
فاتح سندھ ،ہندوستان میں اسلام لانے والے کمسن مجاہد، اور بے شمار مسجدیں تعمیر کرنے والے کے کپڑے اتروا کر ٹاٹ کے کپڑے پہنائے گئے، جو اخلاقی قیدیوں کو پہنائے جاتے تھے، اس کے پاؤں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں۔

3 months ago

کیا تم بتا سکتے ہو وہاں کے حالات کیا ہیں؟،،،،، محمد بن قاسم نے قاصد سے پوچھا۔۔۔ یہ حکم کیوں بھیجا گیا ہے۔
قاصد بڑے ذہین ہوا کرتے تھے جن قاصد کو دوسرے ملکوں میں بھیجا جاتا تھا وہ عموماً فوج کے عہدے دار اور فہم و فراست والے ہوتے تھے۔
امیر سندھ !،،،،،قاصد نے محمد بن قاسم کو بتایا ۔۔۔اب وہاں کے وہ حالات نہیں ہیں جو حجاج بن یوسف کی زندگی میں تھے، خلیفہ ولید بن عبدالملک بیمار ہیں اس بیماری سے شاید وہ جانبر نہ ہو سکے، خلافت کی جانشینی پر کھینچا تانی شروع ہوگئی ہے، معلوم ہوتا ہے بنو امیہ کا یہ خاندان خلافت کے جھگڑے میں آپس کے خون خرابے میں ختم ہوجائے گا ،مرحوم خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اپنی جگہ اپنے اس بیٹے ولید بن عبدالملک کو خلافت کے لئے اپنا جانشین نامزد کیا تھا، اور ولید کے بعد ولید کے چھوٹے بھائی سلیمان کو جانشین بنایا تھا ،مگر ہمارے خلیفہ ولید اپنے بیٹے عبدالعزیز کو اپنا جانشین مقرر کر چکے ہیں،،،،،
امیر سندھ آپ کیلئے مجھے ایک خطرہ نظر آرہا ہے ،،،،،آپ کے چچا مرحوم حجاج بن یوسف خلیفہ ولید کے ساتھ تھے، بنو امیہ کے بڑے بڑے سرداروں کو حجاج نے اپنے زیراثر رکھا ہوا تھا، اور انہیں کہہ رکھا تھا کہ عبدالعزیز کو ہی خلیفہ تسلیم کریں اور سلیمان کی مخالفت کریں ،اس وجہ سے سلیمان اور حجاج کی بول چال بند ہوگئی تھی، لیکن سلیمان کی کوئی حیثیت نہیں ،وہ حجاج جیسے جابر آدمی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا تھا، وہ حجاج کو اپنا دشمن سمجھتا تھا، حجاج انتقال کرگیا سلیمان کو سر اٹھانے کا موقع مل گیا ہے ،اس کے ارادے خطرناک معلوم ہوتے ہیں،،،،،
خلیفہ ولید بن عبدالملک دور اندیش ہے وہ تو اب بستر سے بڑی مشکل سے اٹھتے ہیں، انہوں نے مشرقی ملکوں کے ہر حاکم اور سالار کو حکم بھیجا ہے کہ جہاں ہو وہی رہو ورنہ خطرے میں پڑ جاؤ گے، انہیں غالبا اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکیں گے، انہوں نے اس خطرے کو دیکھتے ہوئے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ اور دوسرے ملکوں میں گئے ہوئے سالار لڑائیوں میں الجھے ہوئے ہوں اور سلیمان یہ حکم بھیج دیں کہ لڑائی بند کردو ،اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پسپا ہوکر واپس آ جاؤ ،اس ادھیڑ عمر با شعور قاصد نے کہا،،،،،، افق سے اندھیرا سا اٹھتا نظر آرہا ہے یہ زوال کا اندھیرا ہے۔
محمد بن قاسم جو پہلے ہی حجاج بن یوسف کی وفات کے صدمے سے نہیں سنبھلا تھا، خلیفہ ولید بن عبدالملک کی بیماری سے اور زیادہ پریشان ہو گیا ،پریشانی میں اضافہ ان حالات نے کیا جو خلافت کی جانشینی پر پیدا ہو رہے تھے، سلیمان بن عبدالملک سے محمد بن قاسم کوئی اچھی توقع نہیں رکھ سکتا تھا، سلیمان کے دل میں محمد بن قاسم کے خلاف لڑکپن سے ہی کدورت بھری ہوئی تھی ۔
تم ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے آہ بھر کر قاصد سے کہا۔۔۔ افق سے اندھیرا اٹھ رہا ہے اللہ ہم سب پر رحم کرے۔
قاصد کے جانے کے چند دنوں بعد دوسرا قاصد یہ خبر لے کر آ گیا کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک فوت ہوگیا ہے، اور سلیمان بن عبدالملک نے خلافت سنبھال لی ہے۔
،،،،،،اور آپ کے لئے حکم ہے کہ نئے خلیفہ کی بیعت کریں۔۔۔۔قاصد نے کہا ۔۔۔۔اطاعت اور وفاداری کا حلف نامہ دیں۔
محمد بن قاسم نے نئے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کردی، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسے دل پر پتھر رکھ کر سلیمان کی وفاداری قبول کرنی پڑی ہوگی، اس نے سالار وغیرہ کو بلایا اور یہ خبر انہیں سنائی، ولید بن عبدالملک کی وفات سے زیادہ افسوسناک خبر یہ تھی کہ اب مسند خلافت پر سلیمان بن عبدالملک بیٹھ گیا تھا ،کہاں ان سالاروں کا وہ جوش و خروش کہ آگے ہی آگے بڑھنے کے لیے ہر دم تیار نظر آتے تھے، اور کہاں یہ افسردگی اور مایوسی جیسے یہ سستانے کے لئے یہاں آ گرا ہو۔
ان سالاروں میں سے بعض محمد بن قاسم سے دگنی عمر کے اور کچھ سہ گنا عمر کے تھے، انہوں نے اپنے معاشرے کو جتنا سمجھا تھا اتنا محمد بن قاسم نہیں سمجھتا تھا ،محمد بن قاسم مرد میدان تھا، فن حرب و ضرب اور عسکری قیادت کی صلاحیت خداداد تھی، مگر وہ ذاتی مفاد پرستی اور سیاست سے ناواقف تھا ،وہ نہیں سمجھتا تھا کہ لوگ ذاتی سیاست بازی میں کیوں پڑ جاتے ہیں، اور ذاتی دوستی اور دشمنی کی خاطر کس طرح پوری قوم کے وقار کو تباہ کر دیتے ہیں، وہ انسانی فطرت کے اس پہلو کو نہیں سمجھتا تھا ،یہ تو اس کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتی تھی کہ اقتدار کی ہوس کار اور ان کی ذاتی سیاست اسے کس چکی میں پیسے گی۔
کچھ دن اور گزر گئے ایک روز دمشق سے ایک آدمی بلال بن ہشام آیا، اتنے لمبے سفر کی تھکن کے علاوہ وہ گھبراہٹ کے عالم میں تھا، اس وقت محمد بن قاسم کیرج میں تھا وہ، شعبان ثقفی کے ساتھ کہیں باہر کھڑا تھا، بلال بن ہشام ان کے قریب جاکر گھوڑے سے اترا، پہلے وہ محمد بن قاسم پھر شعبان ثقفی سے بغلگیر ہو کر ملا ،وہ رو رہا تھا ،اسے محمد بن قاسم کے خیمے میں لے گئے۔

5 months, 1 week ago

=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷
نماز کے فوراً بعد کچھ کھا پی کر مجاہدین قلعے کو محاصرے میں لینے کے لئے تیار ہوگئے، سالاروں نے اپنے اپنے دستوں کو اس ترتیب میں کر لیا جو انھیں بتائی گئی تھی جب دستے قلعے کی طرف چلے تو مجاہدین کی مستورات اور بچوں نے ہاتھ پھیلا کر انہیں دعاوں سے رخصت کیا، سورج کی پہلی کرنیں نمودار ہوئیں۔
مجاہدین ابھی تھوڑی دور گئے تھے کہ قلعے کے اس طرف والے دو دروازے کھلے اور قلعے کی فوج کے کچھ دستے بڑی تیزی سے باہر آئے، باہر آتے ہی وہ لڑائی کی ترتیب میں ہوتے چلے گئے، اس روز بھی ان دستوں کا کمانڈر بجھرا تھا، قلعے کی دیوار کے اوپر انسانی دیوار کھڑی تھی، یہ تیر اندازوں اور برچھی پھیکنے والوں کا ہجوم تھا، باہر آنے والے دستوں اور دیوار کے اوپر کھڑے انسانوں کا انداز اور ان کے جے کار بتا رہے تھے کہ وہ شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں، پچھلے دنوں کی طرح اس قلعے کی دیوار کے اوپر سے بھی مسلمانوں پر طنز اور دشنام کے تیر آنے لگے، ہندو مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے تھے۔
مجاہدین کا ایک سوار دستہ دور کا چکر کاٹ کر قلعے کی پچھلی طرف جا رہا تھا۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ دستوں کو لڑائی میں زیادہ نہیں الجھانا اس کی بجائے دفاعی طریقہ اختیار کرنا اور دشمن کے لیے موقع پیدا کرتے رہنا کہ وہ آگے بڑھ بڑھ کر حملے کریں، محمد بن قاسم کا مقصد یہ تھا کہ دشمن اپنی طاقت ضائع کرتا رہے، اسلام کا یہ کمسن سالار اس جنگ کو طول دینا چاہتا تھا، اس نے اپنے دستوں کو پھیلا رکھا تھا تاکہ ان کے مطابق دشمن کو بھی پھیلنا پڑے اور جہاں موقع نظر آئے پہلو سے اس پر شدید حملہ کردیا جائے۔
سورج غروب ہونے سے پہلے تک لڑائی جاری رہی مسلمانوں نے اپنا انداز دفاعی رکھا محتاط ہو ہو کر لڑتے بھی رہے یہاں بھی وہی دشواری تھی جو پہلے قلعوں میں پیش آئی تھی، وہ یہ کہ دشمن کے عقب میں نہیں جایا جاسکتا تھا کیونکہ پیچھے قلعے کی دیوار تھی اور دیوار پر تیر انداز اور برچھی انداز ہجوم کی صورت میں کھڑے تھے ،ان کی وجہ سے دشمن کا عقب محفوظ تھا۔
بجھرا کے دستے آہستہ آہستہ قلعے میں واپس جانے لگے اب کے پھر چند ایک جانبازوں نے قلعے میں داخل ہونے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ،لیکن محمد بن قاسم نے انہیں روک دیا ،قلعے کے تمام دستے واپس چلے گئے۔ محمد بن قاسم نے خود میدان جنگ میں گھوم پھر کر دشمن کے نقصان کا اندازہ لگایا اور اپنے دستوں کا نقصان بھی دیکھا، تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ اس روز قلعے کی فوج کا جانی نقصان خاصا زیادہ تھا اور زخمیوں کی تعداد تو اور ہی زیادہ تھی، اس کے مقابلے میں مجاہدین کا جانی نقصان نہایت معمولی تھا ،زخمیوں کی تعداد ذرا زیادہ تھی لیکن زخم شدید نہیں تھے۔
محمد بن قاسم نے جب دشمن کے اور اپنے نقصان کا تناصب دیکھا تو وہ بہت خوش ہوا کہ اس کی چال کامیاب رہی، اس نے اس رات سالاروں کو اکٹھا کر کے کہا کہ ہر روز لڑنے کا یہی طریقہ اختیار کریں ،دشمن کو دھوکے میں رکھیں کہ ہم تھکے ہوئے ہیں اور اسے یہ تاثر دیتے رہیں جیسے ہم شدید حملہ برداشت نہیں کریں گے اور بھاگ اٹھے گے، اس طرح دشمن تابڑ توڑ حملہ کرتے رہے گا اور اس کی طاقت زائل ہوتی رہے گی۔
<=======۔==========>
*جاری ہے

5 months, 1 week ago

جس جانباز نے دشمن کے پیچھے یا دشمن کے ساتھ قلعے میں داخل ہونے کی سب سے پہلے کوشش کی تھی اس کا نام تاریخوں میں آج تک محفوظ ہیں، یہ تھا زائدہ بن عمیرطائی ،اس کے سوا تاریخ میں اور کسی کا بھی نام نہیں ملتا، زائدہ کا نام بلاذری نے لکھا ہے، اس خودکش اقدام کی طرح زاہدہ نے ڈالی، یہ ایک غیر معمولی اور بے مثال شجاعت تھی، زائدہ کو دیکھ کر کئی جانباز اس کے پیچھے چلے گئے لیکن ان میں سے دو تین ہی زندہ رہ سکے تھے، زائدہ بن عمیر کی لاش نہیں مل سکی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زائدہ قلعے کے اندر جا کر شہید ہو گیا تھا۔
ادھر بجھرا اپنے دستوں کے ساتھ قلعے میں داخل ہوا قلعے کا دروازہ بند ہوا اور ادھر سورج غروب ہو گیا ،مجاہدین باہر رہ گئے دیوار کے اوپر سے ان پر تیروں اور چھوٹی برچھیوں کی بوچھاڑیں آنے لگیں جن سے چند ایک مجاہدین اور چند ایک گھوڑے زخمی ہوگئے، سالاروں نے اپنے دستوں کو فوراً پیچھے ہٹا لیا۔
دستور اور معمول کے مطابق مجاہدین کی مستورات پانی کے مشکیزے اور پیالے اٹھائے دوڑی آئیں اور زخمیوں کو پانی پلانے اٹھانے اور پیچھے لانے میں مصروف ہوگئیں، ان کی مدد کے لئے کچھ آدمی پیچھے رہ گئے اور باقی خیمہ گاہ میں واپس چلے گئے۔
مجاہدین کا یہ لشکر خیمہ گاہ کو درست کرنے میں لگ گیا، محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں اور ان کے ماتحت چھوٹے سے چھوٹے عہدوں کے عہدے داروں کو بلایا۔
آج کی لڑائی سے ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ دشمن کے لڑنے کا انداز کیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔پچھلے تین چار قلعے کی فوج بھی اسی انداز سے لڑی تھی، یہاں بھی دشمن نے وہی طریقہ اختیار کیا ہے، اس قلعے کے حاکم کورسیہ کو سکہ کے حاکم بجھرا نے یہ طریقہ بتایا ہوگا ،اپنے مجاہدین کو بتادوں کہ یہاں بھی ہمیں ہر روز لڑائی لڑنی پڑے گی اور دشمن ہمیں محاصرہ نہیں کرنے دے گا، محمد بن قاسم نے انہیں کچھ ضروری ہدایات دیں جن میں ایک یہ تھی کہ ایک سوار دستہ قلعے کے اردگرد تیاری کی حالت میں گشت پر رہے تاکہ قلعے کی فوج کو کہیں سے بھی کمک اور رسد نہ مل سکے اور قلعے میں سے کوئی نکل کر کہیں جا نہ سکے، اس دستے کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ لڑائی کی صورت میں اس دستے کا سالار محسوس کرے کہ لڑائی میں مدد کی ضرورت ہے تو وہ خود فیصلہ کرے اور محمد بن قاسم کے حکم کا انتظار کیے بغیر ہی آدھی نفری مدد کے طور پر بھیج دے۔
میرے عزیز رفیقوں!،،،،،، محمد بن قاسم نے جنگی نوعیت کی ہدایات اور احکام دے کر کہا۔۔۔ اپنے دستوں سے کہنا کہ یہ ہے وہ منزل جس تک ہم بخیروخوبی پہنچ گئے ہیں تو ہمارے لیے ہندوستان کا دروازہ کھل جائے گا۔۔۔۔۔ میر معصوم لکھتا ہے کہ محمد بن قاسم بولتے بولتے جذباتی سا ہو گیا اور اس کے چہرے پر ہلکی سی سرخی آگئی، اس نے کہا ملتان اسلام کی روشنی کا مینار ہوگا ،کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے والے مسافر اس مینار کی روشنی سے رہنمائی حاصل کریں گے، اور یہ روشنی قیامت تک اللہ کا نور بکھیرے کرتی رہے گی، آنے والی نسلیں اور ان نسلوں کے بعد آنے والی نسلیں ملتان کے نام کے ساتھ تمہیں بھی یاد کریں گی،،،،،،، اپنے مجاہدین سے کہہ دو کہ ہم ملتان نہ لے سکے تو اپنی جانیں دے دیں گے پیچھے نہیں جائیں گے، مجاہدین کو بتا دو کہ جنت کا دروازہ آگے ہے اور پیچھے دوزخ کا منہ کھلا ہے، ہمارے لئے یہ حکم الہی ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور اپنے لہو کے چمکتے ہوئے قطروں سے کفرستان میں اللہ کا نور بکھیریں، ہم واپس جانے کے لیے نہیں آئے، یہی ہمارا مقدر ہے اور یہ ایک درخشاں مقدر ہے، ہم سب خوش نصیب ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے یہ سعادت ہمیں عطا فرمائی ہے کہ یہ مقدس فریضہ ہم پائے تکمیل تک پہنچائیں،،،،،،،،، اور مجاہدین سے کہنا کہ تم خلیفہ کے لئے اور حجاج بن یوسف کے لیے نہیں لڑ رہے، ہم یہاں اپنی حکومت نہیں بلکہ اللہ کی حکمرانی قائم کرنے آئے ہیں۔
رات کو ہی سالاروں نے اپنے اپنے دستوں کو اکٹھا کرکے محمد بن قاسم کا پیغام ان تک پہنچا دیا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ مجاہدین کی جسمانی حالت وہی ہوچکی تھی جس میں راجہ داہر انہیں دیکھنا چاہتا تھا ، مجاہدین جسمانی لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ چکے تھے لیکن ان کے جذبے اور جوش و خروش میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی تھی ،ان کی حرکات میں اور ان کے نعروں میں وہی جان اور وہی ولولہ تھا جو سندھ میں داخل ہوتے وقت تھا، جوں جوں ان کے جسم شل ہوتے جا رہے تھے ان کی روحانی قوت بیدار ہوتی چلی جا رہی تھی، محمد بن قاسم کے پیغام نے ان میں نئی روح پھونک دی۔
فجر کی اذان ایک مجاہد نے ایک ٹیکری پر کھڑے ہو کر دی، اس اذان میں کوئی اور ہی تاثر تھا سحری کے سناٹے میں اذان کی مقدس صدا تیرتی ہوئی ملتان کے قلعے کی دیواروں سے ٹکرا رہی تھی، اللہ کا یہ پیغام قلعے کے بند دروازوں کے اندر بھی سنائی دے رہا تھا، تھکے ماندے مجاہدین نماز کے لیے تیار ہونے لگے کچھ دیربعد تمام لشکر باجماعت کھڑا ہوگیا اور محمد بن قاسم کی کی امامت میں نماز پڑھی۔

5 months, 1 week ago

ملتان کی جو فوج باہر آئی تھی اس کی کمان بجھرا کے ہاتھ میں تھی، وہ للکار کر قلعے سے باہر آیا تھا کہ مسلمانوں کو ایک ہی ہلّے میں ختم کردے گا، کروسیہ نے بھی یہی بہتر سمجھا کہ بجھرا ہی حملے کی قیادت کرے، کیونکہ اسے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کا تجربہ ہو چکا تھا وہ جانتا تھا کہ میدان جنگ میں مسلمانوں کے انداز اور طور طریقے کیا ہیں۔
کورسیہ اور بجھرا نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہایت اچھا دیکھا تھا مسلمان ابھی خیمہ گاڑ رہے تھے رات کو وہ دریا عبور کرتے رہے تھے اس لئے ایک پَل بھی نہیں سو سکے تھے، محمد بن قاسم نے یہ اہتمام کر رکھا تھا کہ زیادہ نفری والے ایک دستے کو خیمہ گاہ کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا تھا۔
یہ دستہ تیاری کی حالت میں قلعے اور خیمہ گاہ کے درمیان موجود تھا۔
بجھرا نے اپنے سواروں کو حملے کے لیے ایڑ لگانے کا حکم دیدیا، ان سواروں کی تعداد مسلمانوں کے اس دستے سے دو گنا تھی جو خیمہ گاہ کی حفاظت کے لیے موجود تھا ،محمد بن قاسم نے دشمن کے گھوڑوں کو طوفان کی طرح آتے دیکھا تو اس نے محسوس کر لیا کہ اس کا حفاظتی دستہ جس میں سوار بھی تھے پیادے بھی اس حملے کو نہیں روک سکے گا ،اس نے حکم دیا کہ جو کوئی جس حالت میں ہے ہتھیار لے کر لڑائی کی ترتیب میں آجائے۔
حملہ آور زیادہ تیز تھے مجاہدین بھی گھوڑوں پر زین کس رہے تھے کہ ملتان کے دستے خیمہ گاہ کے حفاظتی دستے تک آن پہنچے، اور سندھ کی جنگ کا ایک اور خونریز معرکہ شروع ہو گیا، بجھرا کے دستوں کا یہ حملہ بظاہر بے ترتیب ہلّے جیسا تھا لیکن وہ چوکنا تھا، اسے احساس تھا کہ جو مسلمان خیمہ گاہ میں مصروف ہیں وہ فوراً تیار ہو کر اس پر جوابی حملہ کریں گے، اس نے اپنے کمانڈروں کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مسلمان پیچھے ہٹنے لگے تو اپنے دستوں کو ان کے تعاقب میں نہ جانے دیں ورنہ مسلمانوں کے گھیرے میں آ جائیں گے۔
محمد بن قاسم کے ایک بار تو ہوش اڑ گئے اسے معلوم تھا کہ قلعے میں خاصی زیادہ فوج ہے اگر حملہ آور اس کے مجاہدین پر غالب آگئے تو قلعے سے دشمن کے مزید دستے باہر آجائیں گے اور لڑائی میں شامل ہوکر جنگ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹ دیں گے، ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ عرب سے ابھی کمک نہیں پہنچی تھی۔
خیمہ گاہ والی فوج تیار ہوگئی حملہ آور خیمہ گاہ کے حفاظتی دستے پر غالب آ رہے تھے۔ محمد بن قاسم نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور سالاروں سے کہا کہ وہ حملہ آوروں کے عقب میں جانے کی کوشش کریں اور دونوں پہلوؤں سے بھی دشمن پر حملہ کریں۔
سالاروں نے بڑی عجلت میں اپنے دستوں کو گھیرا ڈالنے کی ترتیب میں کیا اور حملے کے لئے آگے بڑھے، بجھرا نے دیکھا تو اس نے چلا چلا کر اپنے دستوں کو پیچھے ہٹانا شروع کردیا۔
ان کے پیچھے جاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا ۔۔۔انہیں پیچھے ہٹنے کی مہلت نہ دو ،،،،،محمد بن قاسم کے احکام قاصدوں کے ذریعے سالاروں تک پہنچ رہے تھے، یہ قاصد اس کام کے ماہر تھے وہ گھمسان کی گتھم گتھا لڑائی میں بھی پیغام پہنچا دیا کرتے تھے، اور کبھی کوئی قاصد مارا بھی جاتا تھا بعض پیغام بلند آواز والے آدمیوں کے ذریعے بھی پہنچائے جاتے تھے۔
مجاہدین کے دستے دشمن کو گھیرے میں لینے کے لئے دور سے پہلوؤں کی طرف ہو رہے تھے لیکن بجھرا اپنے دستوں کو پیچھے ہٹا رہا تھا، پیچھے ہٹے ہٹتے بجھرا کے دستے قلعے کے قریب پہنچ گئے، محمد بن قاسم نے سالاروں کو پیغام بھیجے کہ وہ قلعے کے دروازے تک پہنچ جائیں اور جب بجھرا کے دستے قلعے میں داخل ہونے لگیں تو اپنے مجاہدین بھی قلعے میں داخل ہو جائیں ،لیکن کورسیہ نے یہ خطرہ بھانپ لیا تھا اس نے اپنا ایک دستہ قلعے کے باہر بھیج دیا اس کے لئے یہ حکم تھا کہ جب بجھرا کے دستے دروازوں میں داخل ہو رہے ہوں تو یہ دستہ مسلمانوں کو روک لے اور انہیں دروازوں کے قریب نہ آنے دیں، قلعے کی دیوار پر جو فوجی اور شہر کے لوگ کھڑے تھے ان کے لئے حکم تھا کہ مسلمان قلعے کے قریب آئیں تو ان پر تیروں ،برچھیوں اور پتھروں کا مینہ برسا دیں۔
پھر ایسے ہی ہوا قلعے سے آئے ہوئے دستے بڑی تیزی سے پیچھے ہٹتے گئے انہوں نے مسلمانوں کو گھیرا مکمل نہ کرنے دیا، انہوں نے جانی نقصان بہت اٹھایا لیکن مسلمانوں کے ہاتھ آئے بغیر قلعے میں چلے گئے، کچھ جاں باز مجاہدین تھے جنہوں نے ان کے پیچھے قلعے کے دروازے میں داخل ہونے کی کوشش کی یہ ایک خودکش کوشش تھی جو کامیاب نہ ہوسکی، کامیابی کا کوئی امکان تھا ہی نہیں دشمن کے گھوڑ سوار ایک ہی بار کئی کئی دروازے میں سے اندر کو جاتے تھے تو دروازے میں ہی پھنسے رہتے اور بڑی مشکل سے آگے نکلتے تھے، محمد بن قاسم کے جو جانباز اندر جانے کی کوشش میں ان کے درمیان آگئے وہ بری طرح پھنس گئے، اگر ان میں سے دو چار اندر چلے بھی جاتے تو شہادت کے سوا کچھ بھی حاصل نہ کر سکتے۔

7 months, 1 week ago

دیا ،محمد بن قاسم کا یہ دستہ قلعے میں داخل ہو گیا اور اس کے پیچھے مجاہدین کا تمام تر لشکر اس دروازے میں داخل ہو گیا، قلعے میں

جو فوج تھی وہ دوسرے دروازے سے نکل بھاگی۔
<=========۔========>
*جاری ہے

7 months, 1 week ago

رات بھر چلتے رہے اور صبح وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں ہر طرف ایسے نشان تھے جیسے یہاں کسی فوج کا پڑاؤ رہا ہو خیمیں لگا کر اکھاڑے گئے تھے، گھوڑے اپنے نشان چھوڑ گئے تھے، اس سمت کو معلوم کرنا مشکل نہ تھا جس سمت یہ گھوڑے گئے تھے، مسلمان دستہ کچھ دور تک گیا راستے میں کچھ آدمی ملے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایک فوج آدھی رات کے کچھ بعد یہاں سے گزری ہے، ان مقامی آدمیوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ راجہ داہر کے بیٹے جے سینا کی فوج تھی، وقت اور فاصلے سے حساب لگایا گیا تو تعاقب بیکار نظر آیا۔
اس مسلمان دستے کے عہدے داروں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور اس فیصلے پر پہنچے کہ وہاں سے بہرور اور دہلیلہ کی طرف کوچ کیا جائے تاکہ اس علاقے میں جے سینا کا کوئی آدمی نہ رہے، ایک جگہ سواروں اور گھوڑوں کو آرام دینے اور کچھ کھانے پینے کے لیے کچھ دیر کے لیے پڑاؤ کیا گیا پھر یہ دستہ چل پڑا۔
یہ محض اتفاق تھا کہ دو شترسوار دکھائی دئیے، مسلمانوں کے دستے کو دیکھ کر وہ راستہ بدل لیے ان کے پیچھے پانچ چھے سواروں کو دوڑایا گیا ،اگر وہ مشکوک آدمی نہ ہوتے تو راستہ نہ بدلتے انہوں نے اپنے خلاف یوں شک پکا کر دیا کہ اونٹوں کو تیز دوڑا دیے، گھوڑے ان تک پہنچ گئے اور ان دونوں کو پکڑ لائے، پہلے تو ان دونوں نے خوفزدگی اور سادگی کا اظہار کیا لیکن ان کے پہلوؤں کے ساتھ مسلمانوں کی بچھیوں کی انیاں رکھی گئیں تو انہوں نے بتادیا کہ وہ جے سینا کے سپاہی ہیں، ان سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ جے سینا چترور کے علاقے میں چلا گیا ہے اور اس نے برہمن آباد کے اردگرد اور برہمن آباد اور بہرور کے درمیانی علاقے میں جو فوجی پھیلا رکھے تھے انہیں پیغام بھیج دیے تھے کہ وہ اس علاقے کو چھوڑ دیں اور اگر وہ اس کے ساتھ رہنا چاہیں تو چترور آ جائیں یا اپنے گھروں کو چلے جائیں ۔
دو تین دن محمد بن قاسم کا ترتیب دیا ہوا دستہ اس سارے علاقے میں گھوم پھر کر واپس آیا اور اس کے فورا بعد کمک اور رسد بھی پہنچ گئی۔
برہمن آباد کے محاصرے کو چھ مہینے گزر چکے تھے ڈیڑھ دو مہینوں سے اندر کی فوج نے باہر آکر حملے کرنے چھوڑ دیے تھے، محمد بن قاسم نے اپنی پوری فوج کو خیمے سے نکال کر قلعے کو پوری طرح محاصرے میں لے لیا تھا اور اس نے دیوار میں نقب یا سرنگ لگانے کا ارادہ کرلیا تھا، اس سے پہلے قلعے کے اندر سنگ باری اور آتش بازی ضروری تھی لیکن محمد بن قاسم شہری آبادی کو کوئی بھی نقصان پہنچانے سے گریز کر رہا تھا۔
ایک روز محمد بن قاسم نے سندھی زبان میں تین چار چھوٹے چھوٹے پیغام لکھوائے، انہیں تیروں کے ساتھ باندھا، رات کے وقت دیوار کے قریب جاکر یہ تیر اس طرح چھوڑے گئے کہ شہری آبادی میں گرے، یہ تو معلوم ہی تھا کہ شہری آبادی کس طرف ہے ،یہ پیغام کی ایک ہی تحریر تھی، جو کچھ اس طرح تھی کہ غیر فوجی لوگ اپنی فوج کو مجبور کریں کہ قلعے کے دروازے کھول دیں ورنہ ہم شہر پر پتھر اور آگ برسائیں گے، اگر شہری ہمارے ساتھ تعاون کریں تو قلعہ فتح ہونے کی صورت میں کسی شہری کو پریشان نہیں کیا جائے گا ان کی عزت جان اور مال کی پوری حفاظت کی جائے گی۔
تین چار دن گزرے تو دو آدمی مسلمانوں کے لشکر میں آئے، انہوں نے بتایا کہ وہ رات کو قلعے کے اندر سے نکلے تھے، بند قلعے میں سے کسی کا باہر آنا یا اندر جانا ممکن نہیں ہوتا تھا ،لیکن ان دونوں نے بتایا کہ شہر کے پانچ ،سات صاحب حیثیت ہندو جن میں مندر کا بڑا پنڈت بھی شامل تھا ایک دروازے کے پہرے پر کھڑے فوجیوں کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ وہ مسلمانوں تک پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ قلعہ لے لو لیکن ہماری جان بخشی کی ضمانت دو ،ان چھے مہینوں کے محاصرے میں شہر کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ لوگوں نے ایک وقت کھانا شروع کردیا تھا اور پانی کی بھی قلت پیدا ہوگئی تھی ،تجارت پیشہ لوگوں کو تو بہت ہی نقصان ہو رہا تھا ،فوج بھی تنگ آ چکی تھی، ان دو آدمیوں کے بیان کے مطابق آدھی فوج جو باہر آکر لڑتی رہی تھی ماری جا چکی ہے، مسلمانوں کے پھینکے ہوئے پیغامات جو تیرا کے ذریعے اندر پہنچائے گئے تھے شہریوں کے ہاتھ لگ گئے تھے، ان سے انہیں یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ مسلمان انہیں پورے حقوق دیں گے۔
شہر کے جو معزز افراد فوجیوں سے ملے تھے انھیں فوجیوں نے بتایا کہ وہ خود ہتھیار ڈالنا مناسب نہیں سمجھتے، انھوں نے اس وفد کو رازداری سے یہ طریقہ بتایا کہ وہ ایک دو دنوں میں جربطری دروازے سے باہر نکلیں گے اور مسلمان پر حملہ کریں گے، ہم بھاگ کر اندر آ جائیں گے اور یہ دروازہ کھلا چھوڑ دیں گے۔
محمد بن قاسم نے شہریوں کے ان نمائندوں کو یقین دلایا کہ ان کی شرائط پوری کی جائیں گی، وہ دونوں رات کے اندھیرے میں گئے اور فوجیوں نے ان کے لئے دروازہ کھول دیا، دو تین دنوں بعد جربطری دروازہ کھلا محمد بن قاسم اسی کا منتظر تھا اندر سے کچھ نفری نکلی، مسلمانوں کا ایک دستہ تیار تھا محمد بن قاسم کے اشارے پر اس دستے نے ہندو فوجیوں پر حملہ کیا وہ بھاگ کر اندر چلے گئے اور دروازہ کھلا رہنے

7 months, 1 week ago

وغیرہ کچھ لاشوں کو کھا جاتے تھے۔
==÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
ذوالحجہ 94 ہجری کے ایک روز مسلمانوں کے لئے کمک اور رسد متوقع تھی لیکن یہ قافلہ نہ پہنچا، دو دن مزید انتظار کیا گیا لیکن بے سود ،لیکن ایک رات ان دستوں میں سے ایک پر شب خون مارا گیا جو محاصرے کے ہوئے تھے، ان سے مجاہدین کو کچھ نقصان پہنچا محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ شب خون مارنے والے قلعے میں سے نہیں نکلے تھے بلکہ باہر سے آئے تھے یہ پتہ نہ چل سکا کہ وہ کون تھے ۔
اس سے اگلی رات پھر ایسا ہی شب خون پڑا اور اپنے ایک اور دستیے کا کچھ نقصان ہو گیا،
مسلمانوں کی فوج کا جانی نقصان پہلے ہی خاصا ہوچکا تھا اب ان شبخونوں نے کچھ نقصان کیا ،ادھر سے رسد اور کمک بھی نہیں آ رہی تھی ،محمد بن قاسم کے حکم سے دو آدمیوں کو دہلیلہ اور بہرور بھیجا گیا کہ وہ معلوم کر کے آئیں گے کمک اور رسد کیوں نہیں آئی، یہ دونوں قلعے دور نہیں تھے ایک ہی دن میں جا کر واپس آیا جا سکتا تھا، لیکن تین دن تک دونوں واپس نہ آئے۔
دو اور آدمی بھیجے گئے شام سے ذرا پہلے ایک آدمی اس حالت میں واپس آیا کہ اس کے کپڑے خون سے لال تھے اور وہ گھوڑے کی پیٹھ پر جھکا ہوا بیٹھا تھا، اس نے بتایا کہ دہلیلہ سے ابھی وہ دور ہی تھے کہ چار آدمیوں نے ان پر حملہ کر دیا اس کا ایک ساتھی مارا گیا اور یہ زخمی حالت میں واپس آ سکا ،اس سے کچھ شک ہوا، شک یہی ہو سکتا تھا کہ رسد کو بھی راستے میں روکا جا رہا ہے۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے کہا کہ جو دستے محاصرے میں لگے ہوئے ہیں وہ رات کو تیار رہیں اور شب خون مارنے والوں میں سے کسی ایک دو کو پکڑنے کی کوشش کریں۔
شب خون ہر رات کا معمول بن گیا تھا آخر ایک روز شب خون مارنے والوں میں سے دو کو گرا لیا گیا، انہیں محمد بن قاسم کے پاس لائے، وہ کچھ بتاتے نہیں تھے، محمد بن قاسم نے حکم دیا کے دونوں کو ایک گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھوڑا دوڑا دو، وہ جانتے تھے کہ وہ کتنی بری موت مریں گے انہوں نے راز کی بات اگل دی ،انہوں نے بتایا کہ یہ جے سینا کی فوج ہے جو وہ ایک مقام بھاٹیہ سے تیار کر کے لایا ہے، اس علاقے کا حاکم رمل تھا جو رومل بادشاہ کے نام سے مشہور تھا، ان آدمیوں نے بتایا کہ جے سینا فوج کو برہمن آباد لا رہا تھا لیکن اسے پتا چلا کہ برہمن آباد تو محاصرے میں ہے تو اس نے برہمن آباد سے دور ہی پڑاؤ کر لیا ،اور وہاں سے وہ اپنے دستے شب خون مارنے کے لیے بھیج رہا تھا۔
ان قیدیوں نے یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں کے لئے برہمن آباد کی طرف جو کمک اور رسد آئی تھی وہ جے سینا کے دستے راستہ روک کر لوٹ لیتے تھے، پہلے جو دو آدمی بھیجے گئے تھے انہی جے سینا کے آدمیوں نے پکڑ کر مار ڈالا تھا ،جے سینا نے اپنے آدمی اس طرح پھیلا دئیے تھے کہ بہرور اور دہلیلہ کی طرف سے کوئی مسلمان برہمن آباد کی طرف جارہا ہوتا تو اسے قتل کر دیتے تھے۔
محمد بن قاسم نے سالاروں کو بلا کر اس صورتحال سے آگاہ کیا اور انہیں کہا کہ ہر سالار اپنے اپنے دستوں میں سے چن کر کچھ آدمی دے تاکہ جے سینا کا تعاقب کیا جائے۔ سالاروں نے فوراً چن کر آدمی نکالے، محمد بن قاسم نے ان کا الگ دستہ بنا دیا ،کسی بھی تاریخ میں اس دستے کی نفری نہیں لکھی گئی کہ کتنی تھی ،یہ واضح ہے کہ اس دستے کے ساتھ اس نے موکو، نباۃ بن حنظلہ کلابی، عطیہ تغلبی، صارم بن صارم ہمدانی، اور عبد الملک مدنی کو عہدے دار مقرر کیا، اس دستے کی کمان دو آدمیوں کو دی گئی ایک موکو تھا اور دوسرا خریم بن عمر المدنی، موکو ابھی تک ہندو ہی تھا ،لیکن وہ اپنی وفاداری ثابت کرچکا تھا ،اور اس میں دوسری خوبی یہ تھی کہ مقامی آدمی ہونے کی وجہ سے وہ ان علاقوں سے واقف تھا۔
=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷
اس دوران ایک شب خون اور پڑا اس میں سے بھی تین آدمیوں کو پکڑ لیا گیا، انہوں نے بتایا کہ جے سینا کس جگہ اپنا اڈا بنا رکھا ہے، اسی روز یہ دستہ جو خاص طور پر اس مہم کے لیے تیار کیا گیا تھا موکو اور خریم بن عمر المدنی کی قیادت میں اس علاقے کی طرف چل پڑا ،تینوں قیدیوں کو بھی ساتھ لے لیا گیا تھا کہ ان کی اطلاع غلط ہوئی تو انہیں قتل کر دیا جائے، انہیں رہنما بنانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ موکو ساتھ تھا اور وہ ان تمام علاقوں سے واقف تھا۔
یہ دستہ سورج غروب ہوتے ہی چل پڑا ،برہمن آباد سے کئی میل دور پہنچے تو اچانک دو گھوڑے جو کہیں رکے کھڑے تھے سرپٹ دوڑ پڑے ان کے پیچھے چار سواروں کو دوڑا دیا لیکن یہ ان دونوں سواروں تک نہ پہنچ سکے، ان چاروں کو کہا گیا تھا کہ تعاقب میں بہت دور نہ جائیں اور انہیں یہ شک پیدا ہو گیا تھا کہ یہ سوار جے سینا کے ہی ہونگے چاروں مسلمان سوار واپس آ گئے۔
اس خصوصی دستے کی پیشقدمی کی رفتار تیز کردی گئی، جے سینا کے اڈے کا علاقہ ابھی خاصا دور تھا صبح تک پہنچ جانے کی توقع تھی، اس دستے کے گھوڑوں کی رفتار تیز تو تھی لیکن گھوڑے سرپٹ نہیں دوڑ رہے تھے، نہ ہی اتنی دور تک انہیں دوڑایا جاسکتا تھا۔

7 months, 2 weeks ago

مجھے رات کو بتایا گیا تھا کہ مہاراج داہر مارے گئے ہیں۔۔۔ پنڈت نے کہا۔ ۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ لاش کو کہاں اور کس طرح جلایا جائے، آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم لوگ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں یہ تو راجہ کی لاش تھی اسے ایک عام لاش کی طرح تو نہیں جلانا تھا، لیکن آپ کی فوج وہاں موجود تھی، میں نے کہا کہ لاش کو یہی کیچڑ میں دبا دو جب مسلمان آگے چلے جائیں گے تو لاش کو پورے احترام اور اعزاز کے ساتھ جلائیں گے،،،،،،،، چلیئے لاش دیکھ لیں۔
شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو اطلاع دی محمد بن قاسم خود وہاں گیا اور کیچڑ سے لاش نکلوائی، داہر کے چہرے پر بھی زخم تھے جن سے چہرہ بگڑ گیا تھا ،ایک روایت یہ ہے کہ داہر سر سے ننگا تھا اس کے سر پر اتنی زیادہ طاقت سے تلوار ماری گئی تھی کہ اس کی کھوپڑی اوپر سے نیچے گردن تک کٹ گئی تھی۔
راجہ داہر کی دونوں کنیزوں کو بھی بلا کر لاش دکھائی گئی انہوں نے تصدیق کی کہ یہ داہر کی ہی لاش ہے۔
اس کا سر کاٹ لو ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔ یہ سر حجاج بن یوسف کے پاس بھیجا جائے گا۔
سر کاٹ لیا گیا۔
اس کا بیٹا جے سینا کہاں ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
وہ پہلے ہی بھاگ گیا تھا۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔وہ برہمن آباد پہنچ چکا ہوگا ، جے سینا برہمن آباد پہنچ کر محمد بن قاسم کی پیش قدمی روکنے کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا تھا۔
<======۔===========>
*جاری ہے

We recommend to visit


‌بزرگ ترین‌ چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
‌‌
راه ارتباطی ما: @WatchCarton_bot

Last updated 3 weeks ago

وانهُ لجهادٍ نصراً او إستشهاد✌️

Last updated 1 year, 1 month ago

⚫️ Collection of MTProto Proxies ⚫️

🔻Telegram🔻
Desktop v1.2.18+
macOS v3.8.3+
Android v4.8.8+
X Android v0.20.10.931+
iOS v4.8.2+
X iOS v5.0.3+


🔴 تبليغات بنرى
@Pink_Bad

🔴 تبلیغات اسپانسری
@Pink_Pad

Last updated 1 week, 4 days ago