Why Pay for Entertainment? Access Thousands of Free Downloads Now!

(تـاریــخِ اســــــلام)𝑯𝑰𝑺𝑻𝑶𝑹𝒀 𝑶𝑭 𝑰𝑺𝑳𝑨𝑴

Description
الســـــلام علیـــــــکم ورحـــمۃ اللہ وبـــرکاتہ!
خوش آمدید!
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ،حکایتِ صحابہ ، مجاہدینِ اسلام ،تاریخ اسلام اوراسلامی کہانیاں۔

👉Quiz: https://t.me/IslamicQuiz_678
Advertising
We recommend to visit

وانهُ لجهادٍ نصراً او إستشهاد✌️

Last updated 8 months, 2 weeks ago


‌بزرگ ترین‌ چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
‌‌

Last updated 4 days, 15 hours ago

⚫️ Collection of MTProto Proxies ⚫️

🔻Telegram🔻
Desktop v1.2.18+
macOS v3.8.3+
Android v4.8.8+
X Android v0.20.10.931+
iOS v4.8.2+
X iOS v5.0.3+


🔴 تبليغات بنرى
@Pink_Bad

🔴 تبلیغات اسپانسری
@Pink_Pad

Last updated 1 month, 4 weeks ago

7 months, 2 weeks ago
7 months, 2 weeks ago

🌹🌹🌹🌹🌹۔ انہوں نے مجھے ضائع کردیا ہے، اور کیسے جوان کو ضائع کیا ہے جو مرد میدان تھا، سرحدوں کا محافظ تھا۔ 🌹🌹🌹🌹🌹۔ محمد بن قاسم کو اعراق لے گئے، خلیفہ سلیمان بن عبدالملک اس کے سامنے نہ آیا، خراج کے حاکم صالح بن عبدالرحمن نے حکم دیا کہ اسے واسطہ کے قید خانے میں…

7 months, 2 weeks ago

🌹🌹🌹🌹🌹۔
انہوں نے مجھے ضائع کردیا ہے، اور کیسے جوان کو ضائع کیا ہے جو مرد میدان تھا، سرحدوں کا محافظ تھا۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
محمد بن قاسم کو اعراق لے گئے، خلیفہ سلیمان بن عبدالملک اس کے سامنے نہ آیا، خراج کے حاکم صالح بن عبدالرحمن نے حکم دیا کہ اسے واسطہ کے قید خانے میں قید کر دو، جہاں اس کے اور حجاج کے خاندان اور قبیلے کے آدمی قید ہیں۔
قید خانے کے دروازے میں کھڑے ہو کر محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم نے مجھے واسطہ میں قید کردیا اور زنجیر ڈال کر مجھے بیکار کر دیا تو کیا ہوا، مجھ سے یہ اعجاز تو نہیں چھین سکو گے کہ وہ میں ہی ہوں جس نے شہسواروں کے دلوں پر دہشت طاری کی اور دشمنوں کو قتل کیا ہے۔
محمد بن قاسم کے آخری الفاظ یہ تھے۔
آئے زمانے تجھ پر افسوس ہے تو شریفوں کے لئے خائن ہے۔
قید خانے میں محمد بن قاسم کو اذیتیں دی جانے لگیں، اور وہ برداشت کرتا رہا، قبیلہ عکسہ کے ایک آدمی کو محمد بن قاسم پر نگرانی کے لئے مقرر کیا گیا تھا ،جو اسے ہر وقت کسی نہ کسی اذیت میں مبتلا رکھتا تھا، سلیمان ہر روز اس کے مرنے کی خبر کا انتظار کرتا تھا ،آخر اس نے آخری اشارہ دے دیا۔
صالح بن عبدالرحمن نے محمد بن قاسم کو قید خانے میں ہی آل عقیل کے حوالے کردیا ،ان لوگوں نے محمد بن قاسم کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا ،وہ تو اب زندہ لاش بن چکا تھا۔
ایک روز ال عقیل نے اسے اس قدر زود و کوب کیا کہ سندھ کے نامی گرامی جنگجو پر ہیبت طاری کر دینے والا عظیم فاتح انتقال کر گیا۔
اناللہ و انا الیہ راجعون
اس وقت اس کی عمر بائس سال تھی، دین کے دشمنوں سے ہتھیار ڈلوا نے والا اپنوں کے ہاتھوں ختم ہوگیا ،محمد بن قاسم کی لاش دیکھ کر ایک شاعر حمزہ بن بیض حنفی نے شعر کہے۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
یہ تو مروّت،دل کی مضبوطی اور فیاضی کا پیکر تھا ،جس نے سترہ سال کی عمر میں لشکروں کی قیادت کی، یہ تو تو پیدائشی قائد تھا۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
ایک اور شاعر نے کہا ۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
اس نے سترہ سال کی عمر میں مردان کارزار کی سرداری کی ۔
اسکی عمر کے لڑکے ابھی گلیوں میں کھیل رہے تھے۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
وہ چمکتا ہوا ستارہ تھا جو جلد ہی ٹوٹ گیا ،
یہاں سے اقتدار کی سیاست چلی، اقتدار جس کے ہاتھ میں آیا اس نے مخالفین کو قتل، گرفتار اور ذلیل و خوار کیا،،،،،، یہ سیاست آج تک چل رہی ہے اور اسلام کا ستارہ مصنوعی ستارہ بن کر خلا میں بھٹک رہا ہے ۔
<========۔======>
----------۔--اختتام-------------
<=======۔=======>

══════════════
رَح٘ــــــمَــــتُ ا٘لّلِـْــــــعـــٰالَمِیــ٘ـنْﷺ
@Rahmatul_Lil_Aalameen

7 months, 3 weeks ago

محمد بن قاسم ککسہ سے اتنا متاثر ہوا کہ اسے اپنا مشیر بنا لیا ،ان علاقوں کے کئی ایک مقامات اور امور ایسے تھے جن کے لئے کسی مقامی مشیر کی ضرورت تھی، مشیر کا دانش مند اور صاحب اثر اور رسوخ ہونا بہت ضروری تھا، ککسہ سے بہتر اور کوئی مشیر نہیں ہوسکتا تھا ،محمد بن قاسم نے اسے خزانے کا وزیر بھی بنا دیا، اور اس پر اتنا اعتماد کیا کہ اسے مشیر مبارک کا خطاب دیا۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=
بھاٹیہ کو محمد بن قاسم نے ایک مضبوط فوجی اڈا بنا دیا اور اپنی اگلی منزل کے تعین میں مصروف ہوگیا، اس منصوبہ بندی میں ککسہ کے مشورے بہت مفید ثابت ہوئے ،فیصلہ کیا گیا کہ اگلی منزل اسکلند ہوگی، بعض تاریخوں میں اسے عسقلند بھی لکھا گیا ہے، یہ اس زمانے کا مشہوراور خاصا بڑا شہر تھا۔
ایک روز رانی لاڈی محمد بن قاسم کے پاس آئی اور اس نے ایسی درخواست کی جس نے محمد بن قاسم کو تذبذب میں مبتلا کردیا ،جب سے ککسہ نے اطاعت قبول کی اور محمد بن قاسم اس کے شہر میں داخل ہوا تھا رانی لاڈی پہلی بار محمد بن قاسم کے پاس آئی تھی۔
کیا میں نے آپ کو کہا نہیں تھا کہ کا ککسہ نہیں لڑے گا۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔میں اسے جانتی تھی کہ حالات کو سمجھ کر فیصلہ کرنے والا آدمی ہے۔
اگر یہ شخص لڑنے کی حماقت کرتا تو اسے بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
اگر ککسہ قلعے کے دفاع میں لڑتا تو میں اسے لڑنے سے روک سکتی تھی۔۔۔ لاڈی نے کہا ۔۔۔اس پر میرا اتنا اثر ہے کہ میں اس سے اپنی بات منوا سکتی ہوں۔
اللہ کو جو منظور تھا وہ ہوچکا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم نے دیکھا ہے کہ میں نے اس کی وفاداری اور اس کی دانشمندی کی کتنی قیمت ادا کی ہے، کیا تم ککسہ سے مل چکی ہو؟
نہیں !،،،،،،رانی لاڈی نے جواب دیا۔۔۔ آپ کی اجازت کے بغیر میں اپنے کسی آدمی سے نہیں ملتی۔
تم اس سے مل سکتی ہو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔
میں یہی اجازت لینے آئی ہوں۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔میں اسے صرف ملنا ہی نہیں چاہتی بلکہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔
یہ سن کر محمد بن قاسم خاموش ہو گیا ،اس نے محسوس کیا ہوگا کہ یہ دونوں مل کر کوئی سازش نہ کرلیں۔
آپ خاموش کیوں ہو گئے ہیں؟،،،، رانی لاڈی نے پوچھا۔۔۔ آپ کا چہرہ بتا رہا ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ میں اس سے ملوں، آپ کے دل میں کسی بھی قسم کا شک یا وہم ہے تو وہ دل سے نکال دیں، ککسہ کے ساتھ اس کے خاندان کی عورتیں ہیں میں ان کے ساتھ رہوں گی، اگر آپ مجھے اپنا قیدی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتی، میں آپ کو یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ ککسہ کے ساتھ میرا رہنا آپ کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
ہاں لاڈی !،،،،،محمد بن قاسم نے اپنی سوچ سے بیدار ہو کر کہا۔۔۔ جاؤ میں تمہیں ککسہ کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہوں۔
رانی لاڈی ککسہ کے پاس چلی گئی ۔
اسی شام شعبان ثقفی محمد بن قاسم کے پاس آیا۔
ابن قاسم!،،،،، اس نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ اس عورت کو ککسہ کے پاس بھیج کر تم نے اپنے لیے خطرہ پیدا کرلیا ہے ،تم میرے سپہ سالار اور سندھ کے امیر ہی نہیں ہو، میں تمہیں اپنا بیٹا بھی سمجھتا ہوں، تم بڑے ہی قابل اور جرات مند سالار ہو سکتے ہو لیکن نوجوانی کی اس عمر میں جذبات کبھی عقل پر غالب آجاتے ہیں ،میں نے جنگی امور میں کبھی دخل اندازی نہیں کی اور میں تمہیں اجازت نہیں دے سکتا کہ تم میرے معاملات میں دخل دو، تمہاری حفاظت میرا معاملہ ہے۔
کیا تم کوئی خطرہ محسوس کر رہے ہو؟
یہ لوگ اکٹھے ہوکر خطرہ پیدا کرسکتے ہیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے جواب دیا ۔۔۔یہ ایک ہی مذہب کے لوگ ہیں اور تم نے انہیں تخت و تاج سے محروم کرکے اپنے سائے میں بیٹھا لیا ہے، ایسا امکان موجود ہے کہ یہ تمہارے وفادار رہ کر تمہاری اس مہم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔
کیا مجھے اپنا فیصلہ واپس لے لینا چاہئے؟
نہیں ابن قاسم!،،،،، شعبان ثقفی نے جواب دیا۔۔۔ فیصلہ واپس لینا تمہاری شان کے خلاف ہے، اس کا علاج میرے پاس موجود ہے میں ان لوگوں میں ایک دو جاسوس چھوڑ دو گا، جو ان کے جان پہچان والے مقامی آدمی ہوں گے۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
محمد بن قاسم نے بھاٹیہ کا شہری انتظام رواں کردیا اور اب لشکر اسکلند کی طرف کوچ کے لئے تیار کھڑا تھا۔
پہلے کہا جاچکا ہے کہ اس دور کے کئی شہر اور قصبے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں، اس لئے فاصلوں کا تعین کرنا ممکن نہیں، آج اسکلند بھی موجود نہیں، مجمل التواریخ میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسکلند قلعے تک پہنچنے کے لئے دریائے بیاس عبور کرنا پڑا تھا۔
لشکر کے کوچ سے پہلے ہر اول دستہ روانہ ہوا کرتا تھا جسے مقدمۃ الجیش کہتے تھے، اب لشکر کے کوچ سے پہلے ہراول دستہ منتخب کیا گیا اس کے ساتھ جانے کے لیے ککسہ نے اپنے آپ کو پیش کیا ،وہ ان علاقوں سے واقف تھا اس لیے محمد بن قاسم نے اسی کو اس دستے کی کمان دے دی اور اس کے ساتھ اپنا ایک سالار زائدہ بن امیر طائی بھیجا۔
جاری ہے ۔۔
══════════════
رَح٘ــــــمَــــتُ ا٘لّلِـْــــــعـــٰالَمِیــ٘ـنْﷺ
@Rahmatul_Lil_Aalameen

7 months, 3 weeks ago

اگر آپ آگے نکل جائیں تو ہم آپ کو فوج کے لیے اناج دے دیں گے۔۔۔ حاکموں کے اس وفد کے سربراہ نے کہا ۔۔۔ گھوڑوں کے لیے خشک اور ہرا چارہ بھی دیں گے۔
میں بھیک مانگنے نہیں آیا میرے معزز مہمان!،،،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اناج اور چارا ہم خود لے لیا کرتے ہیں، ہمیں قلعہ چاہیے میرے اس ارادے پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی ،کیا تمہارا راجہ اطاعت قبول نہیں کرے گا؟
کرے گا !،،،،،حاکم نے جواب دیا۔۔۔ اس نے ہمیں اجازت دی ہے کہ آپ کو ہماری پہلی شرط قبول نہ ہو تو ہم آپ کی اطاعت قبول کرنے کی شرائط پر بات کریں، اطاعت قبول کرنے کی صورت میں راجہ کی حیثیت کیا ہوگی؟ ،،،میں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ راجہ ککسہ راجہ داہر جیسا نہیں ،وہ دانش مند ہے اس کے پاس علم بھی ہے ،فوج کے حاکموں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ آپ کا مقابلہ کیا جائے اور قلعہ اس صورت میں دیا جائے جب کوئی فوج زندہ نہ رہے، لیکن راجہ نے جو فیصلہ سنایا اس نے ہم سب کو حیران کر دیا۔
کیا آپ لوگ بھی لڑنے کے لیے تیار تھے ؟،،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔
آپ ایک جنگجو قوم کے سپہ سالار ہیں۔۔۔ وفد کے سربراہ نے جواب دیا۔۔۔ اپنے قلعے کے دفاع میں لڑنے کو آپ جرم نہیں کہیں گے، دشمن کا مقابلہ کوئی گناہ نہیں، یہ بھی سوچ سپہ سالار ہم نے راجہ کا نمک کھایا ہے، راجہ داہر نے ہمیں روپے دیے ہیں، اس دھرتی نے ہمیں عزت دی ہے، اناج اور پانی دیا ہے، ہم لڑنے کے لیے کیوں تیار نہ ہوتے، کیا آپ اپنے ان حاکموں کو اچھا سمجھیں گے جو لڑنے سے منہ موڑے گے؟
بے شک آپ سچے اور وفادار ہیں... محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ راجہ ککسہ نے آپ کو لڑنے سے کیوں روک دیا ہے؟
وہ دانشمند ہے ۔۔۔سربراہ حاکم نے کہا۔۔۔ اس نے کہا کہ میں نے مسلمانوں کو میدان میں لڑتے دیکھا ہے، میں نے داہر کو گرتے اور مرتے دیکھا ہے، میں نے ہاتھیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں لہو لہان ہو ہو کر بھاگتے دیکھا ہے ،انہوں نے دیبل اور نیرون لے لیا ہے، سیوستان اور برہمن آباد لے لیا ہے، وہ بھاٹیہ بھی لے لیں گے،،،،،،عربی سالار!،، راجہ ککسہ نے کہا کہ یہ جانتے ہوئے کہ ہم آخر مارے جائیں گے، ان سپاہیوں کو اس لئے مروا دینا کہ یہ ہمارا دیا کھاتے ہیں اور ہم نے انہیں لڑنے اور مرنے کے لیے پالا پوسا ہے عقل مندی نہیں یہ ظلم ہے، اور جب دشمن فاتح بن کر شہر میں داخل ہو گا تو وہ اپنا نقصان شہر کے لوگوں سے پورا کرے گا، ایک ایک جان کے بدلے بیس بیس جانیں لے گا ،شہر کی نوجوان لڑکیوں کو مال غنیمت میں شامل کرے گا، رعایا کے جان و مال اور عزت کی حفاظت راجہ کا فرض ہے، اس نے کہا کہ راجہ دیکھ رہا ہے کہ وہ رعایا کو دشمن سے صرف اس طرح بچا سکتا ہے کہ اپنا راج دشمن کے حوالے کر دے تو اسے یہ قربانی دے دینی چاہیے، ہم جہاں لڑ سکتے تھے وہاں اس امید پر لڑے کے دشمن کو بھگا دیں گے، اب حالات کچھ اور ہیں۔
میں آپ کے راجہ کی قدر دل و جان سے کرتا ہوں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔وہ دانشمند آدمی ہے، اسلام میں اس آدمی کا درجہ بہت اونچا ہے جو اللہ کے بندوں کے مال و اموال جان اور عزت کو اپنے رتبے پر قربان نہ کرے بلکہ اپنا رتبہ جاہ و جلال اپنی رعایا پر قربان کر دیے، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا آپ کا راجہ میرے پاس آجائے؟،،،، اس کے رتبے کا پورا خیال رکھا جائے گا۔
تاریخوں میں ہے کہ محمد بن قاسم نے ککسہ کے بھیجے ہوئے وفد کی بہت عزت کی اور انھیں اس احترام سے رخصت کیا جس کے وہ حقدار تھے، اس نے اس ملاقات کو ہتھیار ڈالنے کی تقریب نہ بنایا۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
اگلے ہی روز علی الصبح محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ راجہ ککسہ آرہا ہے ۔
محمد بن قاسم فوراً خیمے سے نکلا گھوڑے پر سوار ہوا اور ککسہ کے استقبال کے لئے خیمہ گاہ سے آگے نکل گیا۔
شعبان ثقفی اس کے محافظوں کو ساتھ لے کر اس کے پیچھے گیا، ککسہ گھوڑے سے اتر آیا، اسے پوری تعظیم دینے کے لئے محمد بن قاسم بھی گھوڑے سے اتر کر اور آگے جاکر ککسہ سے ملا، ترجمان ساتھ تھا۔
کیا آپ راجہ داہر کے چچا زاد بھائی ہیں؟،،،،، محمد بن قاسم نے قبضہ سے پوچھا ۔
میں اس پر فخر تو نہیں کرسکتا کہ میں راجہ داہر کا چچا زاد بھائی ہوں۔۔۔ ککسہ نے کہا۔۔۔ لیکن مجھے اس پر فخر ہے کہ میں اس سے بالکل مختلف ہوں، مختلف سے مراد یہ نہیں کہ وہ بہت دلیر تھا جس نے آپ کی اطاعت قبول نہیں کی، اور میں بزدل ہوں کہ بغیر لڑے آپ کی اطاعت قبول کر رہا ہوں۔
میں آپ کی قدر کرتا ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا،، اور اسے اپنے خیمے میں لے آیا۔
ککسہ کے ساتھ جب محمد بن قاسم کی باتیں ہوئیں تو انکشاف ہوا کہ ککسہ دانشور اور فلسفی ہے ،اس نے محمد بن قاسم کی اطاعت باقاعدہ طور پر قبول کر لی صرف یہ شرط پیش کی کہ بھاٹیہ شہر کے لوگوں کو امن و امان میں رکھا جائے اور انھیں تجارت کی عبادت اور شہریت کا پورا حق دیا جائے۔

7 months, 3 weeks ago

وہ اروڑ کا رہنے والا ہے۔لاڈی نے کہا۔ہم نے دیکھ لیا ہے کہ اروڑ کے لوگ عقل مند ہیں دیانت دار اور وفادار ہیں ،ککسہ ان لوگوں سے زیادہ عقلمند ہے، لڑنے کا یا نہ لڑنے کا فیصلہ کرے گا تو سوچ سمجھ کر کرے گا، میری ضرورت ہوئی تو میں اس کے پاس چلی جاؤں گی۔
رانی لاڈی محمد بن قاسم کے کمرے سے نکلی تو اس کے چہرے پر مایوسی کا گہرا تاثر تھا، وہ کچھ اور سوچ کر آئی تھی لیکن مورخوں کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عورت عقل و دانش والی تھی، اچھے برے کی تمیز بھی رکھتی تھی ، لاڈی محمد بن قاسم کے کمرے سے نکلی تو اس کے چہرے پر مایوسی کا گہرا تاثر تھا، وہ کچھ اور سوچ کر آئی تھی لیکن مورخوں کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عورت عقل و دانش والی تھی، اچھے برے کی تمیز بھی رکھتی تھی ،وہ محمد بن قاسم کو آپ کہتی رہی اور بے تکلفی سے اس نے تم بھی کہا لیکن اس رات اس نے محسوس کرلیا کہ مسلمانوں کا یہ نوجوان سالار جسم نہیں روح ہے، یا یہ خوبصورت نوجوان سرتاپا روحانی قوت ہے ۔
رانی لاڈی کمرے سے نکل گئی اور فوراً ہی واپس آگئی۔
مجھے معاف کر دو گے محمد بن قاسم؟،اس نے کہا۔ میں تمہیں ناپاک کرنے آئی تھی۔
کیا تم مجھ پر اپنا جادو چلا کر مجھے نقصان پہنچانے کا ارادہ لے کر آئی تھیں؟،محمد بن قاسم نے پوچھا۔وہ کیا تم یہ امید لے کر آئی تھیں کہ مجھ پر اپنا یہ حسین آسیب طاری کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گی؟
مت سوچو ایسی بات محمد بن قاسم !،لاڈی نے کہا۔میرا کوئی ارادہ ایسا نہیں جس سے تمہیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو ،تم دیوتا ہو ،حسین اور جوان عورت کو دیکھ کر تو بادشاہ انسانوں کی سطح سے بھی نیچے آجایا کرتے ہیں، میں نے تمہیں بھی ایسا ہی بادشاہ سمجھاتھا۔
تم بھی اسی لئے انسانوں کی سطح سے نیچے اتر آئی تھیں کہ تم شاہی خاندان کی عورت ہو۔محمد بن قاسم نے کہا۔
نہیں!،لاڈی نے کہا۔میری رگوں میں شاہی خاندان کا خون نہیں ،میں تو معمولی سے ایک تاجر کی بیٹی ہوں جسے راجہ داہر نے دیکھا تو اپنے لیے پسند کر لیا ،میرے دل میں عام لوگوں کی محبت ہے، اسی لیے میں نے قلعے کے دروازے کے قریب آکر اروڑ کی فوج سے کہا تھا کہ راجہ داہر مارا جا چکا ہے، اور وہ تمہاری اطاعت قبول کر لیں، پھر میں نے تمہیں کہا تھا کہ لڑنے والوں کو قتل نہ کرنا ،اب میں تمہیں یہ بتاتی ہوں ککسہ تمہاری اطاعت کو قبول کر لے گا ،خون کا ایک قطرہ نہیں بہے گا ۔
رانی لاڈی کمرے سے نکل گئی۔
=÷=÷
چند دنوں بعد محمد بن قاسم مجاہدین کے لشکر کے ساتھ بھاٹیہ کے قریب پہنچ گیا، یہ قلعہ بن قصبہ دریائے بیاس کے مشرقی کنارے پر واقع تھا، سلطان محمود غزنوی کے دور میں بھی یہ قصبہ موجود تھا اس کے بعد اس کا ذکر کہیں نہیں ملتا ،اور اب تو اس کے کھنڈرات بھی نہیں ملتے۔
مجاہدین کے لشکر کے ساتھ رانی لاڈی بھی تھی، اسے ان عورتوں کے ساتھ رکھا گیا تھا جو مجاہدین کی بیویاں وغیرہ تھیں، محمد بن قاسم نے اسے اپنے ساتھ اس لئے رکھا تھا کہ کسی نہ کسی موقع پر اس کی ضرورت محسوس ہو سکتی تھی۔
مجاہدین نے بھاٹیہ سے کچھ دور آخری پڑاؤ کیا،قلعے کے متعلق ضروری معلومات لینے کے لئے جاسوسوں کو آگے بھیج دیا گیا، محمد بن قاسم کا خیمہ نصب کیا جا چکا تھا ،جس میں وہ ابھی داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ کسی نے اسے بتایا کہ قلعے کی طرف سے چھ سات گھوڑسوار آرہے ہیں اور ان کے پیچھے تین اونٹ ہیں، محمد بن قاسم خیمے کے باہر کھڑا رہا اور کچھ دیر بعد گھوڑ سوار اور ان کے پیچھے تین اونٹ اسے بھی نظر آنے لگے، اس نے حکم دے دیا کہ یہ سوار اگر اس کے پاس آنا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے۔
سوار اسی سے ملنے آ رہے تھے، اس کے خیمے سے کچھ دور شعبان ثقفی نے انہیں روک لیا، شعبان نے حکم نامہ جاری کرنا تھا کہ کسی اجنبی کو اس وقت تک محمد بن قاسم کے قریب نہ جانے دیا جائے جب تک وہ خود اس اجنبی کو اچھی طرح نہ دیکھ لے، محمد بن قاسم پر قاتلانہ حملے کا امکان اور خطرہ ہر وقت موجود رہتا تھا ،ان سواروں کو شعبان ثقفی نے ٹھوک بجا کر دیکھا اور ان کی تلوار اپنے پاس رکھ لی ،ان کے کمر بندوں کو اچھی طرح ٹٹول کر دیکھا کہ ان کے کپڑوں کے نیچے خنجر نہ ہو، اپنا اطمینان کرکے اس نے انھیں محمد بن قاسم تک جانے دیا اور خود بھی ان کے ساتھ آیا۔
یہ راجہ ککسہ کے بھیجے ہوئے حاکم ہیں۔شعبان ثقفی نے کہا۔راجہ کے تحفہ لائے ہیں۔
محمد بن قاسم انہیں تپاک سے ملا، خیمے میں بٹھایا اور ان کے خاطرتواضع کا حکم دیا ۔
ہم یقیناً آپ کو قتل کرنے کے لیے نہیں آئے۔ایک حاکم نے کہا۔ہم سے تلوار لے کر آپ کے اس حاکم نے ہماری عزت نہیں کی، ہم جنگجو لوگ ہیں، میدان جنگ میں قتل کرتے اور قتل ہوتے ہیں۔
محمد بن قاسم کے حکم سے ان کی تلواریں آگئیں جو اس نے ان حاکموں کو احترام سے پیش کیا ۔
انہوں نے محمد بن قاسم کو راجہ ککسہ کے تحائف پیش کیے۔
ان تحائف کا مطلب کیا ہے ؟،محمد بن قاسم نے پوچھا۔کیا تمہارا راجہ یہ چاہتا ہے کہ میں اس کے قلعہ بند شہر کی طرف دیکھے بغیر آگے نکل جاؤں، یا وہ میری اطاعت قبول کرلے گا ۔

9 months, 1 week ago

میں نہ گیا تو کیا ان کی شرکشی بڑھ نہ جائے گی ؟،،،،کیا ابھی تک سندھ کے راجہ سے اپنے قیدی نہیں چھڑائے جا سکے؟امیر شیراز!،،،،، قاصد نے کہا ۔۔۔آپ پر اللہ کی رحمت ہو ،دو سالار سندھ کی سرزمین پر اپنی جانیں دے چکے ہیں۔
سالار محمد بن قاسم نے چونک کر پوچھا ۔۔۔جلدی بتاؤ وہ کون تھے؟
پہلا سالار عبداللہ بن نبہان گئے اور شہید ہو گئے۔۔۔ قاصد نے کہا۔۔۔ اور ہمارے لشکر نے شکست کھائی پھر بدیل بن طہفہ گئے اور وہ بھی شہید ہوگئے اور ان کی شہادت ہماری شکست کا باعث بنی ،سالار عامر بن عبداللہ نے آپ کے چچا ابن یوسف امیر بصرہ کو کہا تھا کہ اب انھیں سندھ پر حملے کا موقع دیا جائے، لیکن امیر بصرہ نے کہا کہ سندھ کا فاتح میرے مرحوم بھائی کا بیٹا ہی ہو گا۔
محمد بن قاسم کے چہرے پر جو تبدیلی آئی تھی وہ کچھ اور ہی قسم کی تھی وہ اٹھ کر کمرے میں آہستہ آہستہ ٹہلنے لگا اس نے اپنے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ رکھے تھے اور اس کا سر جھکا ہوا تھا، قاصد کی نظریں اس پر لگی ہوئی اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔
ابن نبہان اور ابن طہفہ شکست کھانے والے سالار تو نہیں تھے۔۔۔ محمد بن قاسم نے رک کر قاصد سے پوچھا۔
خدا کی قسم وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں آگے بڑھنے والوں میں سے تھے ۔۔۔قاصد نے کہا۔۔۔ دونوں دشمن کے قلب میں چلے گئے،
قاصد کو سندھ پر دونوں حملے کی جو تفصیلات معلوم تھیں وہ اس نے محمد بن قاسم کو سنائی اور اسے بتایا کہ حجاج بن یوسف کی جذباتی حالت کیا ہو رہی ہے۔
اس کی حالت ایسی ہی ہونی چاہیے۔۔۔ محمد بن قاسم نے قاصد سے کہا۔۔۔ ہم پر سونا اور کھانا حرام ہو جانا چاہیے، ہم پر اپنی بیویاں حرام ہو جانی چاہیے، کچھ دیر آرام کر لے اور واپس چلا جا میرے چچا سے کہنا کہ تیرے بھائی کا بیٹا تیرا عہد پورا کرے گا، اپنے قیدیوں کو میں ہی آزاد کراؤنگا، اور اگر اللہ مجھ پر راضی رہا تو سندھ کے سب سے اونچے مندر پر اسلام کا پرچم لہراؤنگا۔
قاصد کے جانے کے فوراً بعد محمد بن قاسم نے اپنے مشیروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ حجاج بن یوسف کا کیا حکم آیا ہے۔
امیر محترم!،،،،، ایک سالار نے کہا ۔۔۔حجاج کا یہ کہنا کہ رے پر فوج کشی روک دی جائے، کوئی اچھا فیصلہ نہیں، سندھ پر حملے کے لئے صرف آپ جا رہے ہیں آپ یہاں سے اپنے محافظ دستے کے سوا کوئی نفری نہیں لے جا رہے، اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی غیر حاضری میں ہم رے کی مہم جاری رکھیں۔
اگر ہم نے یہ مہم روک دی تو قبائل کی سرکشی بغاوت بن جائے گی ۔۔۔دوسرے سالار نے کہا۔۔۔ آپ کے جانے کے بعد ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو نہیں رہ سکتے۔
میں آپ کو اجازت دیتا ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔لیکن یہ سوچ لینا کہ حجاج سندھ میں دو دفعہ شکست کے بعد تیسری شکست کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرے گا، اور وہ بخشے گا بھی نہیں، آپ سب اسے جانتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس کی جذباتی حالت کیا ہو رہی ہوگی۔
اس کے باوجود ہم باغیوں کے خلاف اس جنگی کارروائی کو ملتوی نہیں کریں گے۔۔۔ ایک سالار نے کہا ۔
حجاج کے اوپر اللہ بھی ہے۔۔۔ دوسرے سالار نے کہا ۔۔۔ہمیں حجاج کی نہیں اللہ تعالی کی خوشنودی چاہیے۔
محمد بن قاسم کی اپنی جذباتی کیفیت کچھ ایسی ہو گئی تھی جیسے وہ ان دونوں سالاروں کی بات دھیان سے سن ہی نہ رہا ہو، اس نے مکران اور سندھ کا نقشہ سامنے رکھ کر سالاروں کے ساتھ صلح مشورہ شروع کردیا۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=
*جاری ہے۔۔
══════════════
رَح٘ــــــمَــــتُ ا٘لّلِـْــــــعـــٰالَمِیــ٘ـنْﷺ
@Rahmatul_Lil_Aalameen

9 months, 1 week ago

═════•○l ꙰ ○•═════
✍️ فاتح سندھ محمد بن قاسم
═════•○l ꙰ ○•═════

📎قـســــــط نمــــــــبر9 📎
Part-2
میں نے آپ سے پہلے حملے کی اجازت اس شرط پر لی تھی کہ اس حملے میں جو مالی نقصان ہو گا میں اس سے دوگنا خزانے میں جمع کراؤنگا۔
اب میں اس وقت امیرالمومنین کے سامنے آؤں گا جب میں اپنی شرط پوری کرنے کے قابل رہوں گا ،ہمارے لیے اب سندھ پر قبضہ پہلے سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے، میں نے فیصلہ کر لیا ہے اب میں اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو سندھ بھیجوں گا ،مجھے امید ہے کہ امیرالمومنین کی غیرت کا بھی یہی تقاضہ ہوگا ،اور مجھے روکا نہیں جائے گا، اور مجھے اپنی قوم کے سامنے سرخرو ہونے کا موقع دیا جائے گا۔
ولید بن عبدالملک حجاج بن یوسف کو بڑی اچھی طرح جانتا تھا ،حجاج ایک طاقت بن چکا تھا اور حجاج کی فطرت میں جو قہر بھرا ہوا تھا اس سے خلیفہ ولید خائف بھی رہتا تھا ۔
اس دوران ایک سالار عامر بن عبداللہ حجاج کے پاس آیا۔
یا حجاج!،،،،، سالار عامر نے کہا ۔۔۔اگر آپ مجھے سندھ پر حملے کے لئے بھیجا جائے تو پہلی دو شکستوں کا انتقام بھی لوں گا، مال و اموال کا جو نقصان ہوا ہے وہ بھی پورا کروں گا ۔
اگر تیرے دل میں کوئی اور لالچ نہیں، اور اگر تو صرف سالاری کی خواہش نہیں رکھتا تو میں تیرے جذبے کی تعریف کروں گا۔۔۔ حجاج نے کہا۔۔۔ لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ مہم محمد بن قاسم سر کرے گا۔
حجاج بن یوسف کو سالار بدیل بن طہفہ سے بہت پیار تھا اور وہ بدیل کی شجاعت اور جارحانہ قیادت سے متاثر تھا۔ بدیل شہید ہو گیا تو حجاج نے ایک روز مسجد کے موذن کو بلایا۔ اللہ تیری آواز کو اور زیادہ دور تک پہنچائے، اور تجھ پر ابر رحمت برسائے، آج سے یوں کیا کر کہ ہر اذان کے بعد بدیل بن طہفہ کا نام اونچی آواز میں لیا کر تا کہ میں اسے بھول نہ پاؤں اور اس کے خون کا بدلہ لینے تک اس کے لیے دعا کرتا رہوں۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=
اس وقت محمد بن قاسم امیر فارس تھا اور شیراز میں مقیم تھا، کچھ دن پہلے حجاج نے اسے حکم بھیجا تھا کہ یہ کے علاقے میں جو قبائل سر کشی کر رہے ہیں وہ باتوں سے سیدھے راستے پر آنے والے نہیں ان پر باقاعدہ حملہ کرو ایسی سرکشی کو فوج کشی سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
محمد بن قاسم اس مہم کی تیاریاں مکمل کرچکا تھا کہ اس کے پاس حجاز کا ایک اور قاصد پہنچا، حجاج کا پیغام بالکل مختصر تھا۔
میرے بھائی کے بیٹے!،،، پیغام میں لکھا تھا۔۔۔ وہ وقت آگیا ہے جس وقت کے لئے میں نے تیری پرورش کی تھی، رے کی مہم کو ترک کردو شیراز میں ہی انتظار کرو ،میں فوج بھیج رہا ہوں سندھ پر حملہ کرنا ہے اور میں سندھ کو سلطنت اسلامیہ میں دیکھنا چاہتا ہوں، باقی ہدایات بعد میں دونگا سندھ میں ہماری دو بار ناکامی کی تفصیل قاصد سے سن لینا۔
حجاج کی تمام تر سرگرمیاں سندھ پر حملے کے لیے فوج تیار کرنے اور جنگی سازوسامان اور رسد اکٹھی کرنے پر مرکوز ہو گئی ،ایک جمعے کے روز اس نے بصرہ کے لوگوں کو اکٹھا کرکے خطبہ دیا تقریباً تمام مؤرخوں نے اس کے اس خطبے کو لفظ بلفظ لکھا ہے۔
اے لوگو!،،،،، حجاج نے خطبے میں کہا۔۔۔ اس حقیقت سے تم سب کو واقف ہونا چاہیے کہ وقت بدلنے والا ہے اور وقت دو دھاری تلوار کی مانند ہے، یہ کبھی ہمارے حق میں ہو جاتا ہے اور کبھی ہمارے خلاف رخ بدل لیتا ہے، وقت جب ہمارے حق میں ہو تو ہمیں سست اور بے خبر نہیں ہو جانا چاہیے ایسے وقت اپنی فوج کو تربیت دو اور اپنی تربیت بھی کرو ،اور جب وقت اچانک پلٹا کھا کر ہمارا دشمن ہو جائے تو اس کے لائے ہوئے مصائب اور مشکلات کا مقابلہ دلجمعی سے کرو، مصائب کو شکست دو ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرو اس کی ذات باری کی نوازشوں کو یاد رکھو، ورنہ اللہ اپنی نعمتوں کے دروازے بند کر دے گا۔
میں اپنے سالار بدیل بن طہفہ کی یاد کو دل سے مٹا نہیں سکتا ،میرے کانوں میں اسکی پکار گونجتی رہتی ہے،،،،،،حجاج انتقام،،، حجاج انتقام،،،، میں ابن طہفہ کی پکار کا جواب دیتا رہتا ہوں کہ خدا کی قسم میں عراق کی ساری دولت ابن طہفہ کے خون کا بدلہ لینے پر صرف کر دوں گا، میرے قہر کا شعلہ انتقام لینے تک نہیں بجھے گا۔
اے لوگو!،،،، عرب کی آبرو ہی نہیں اسلام کی آن تمہیں پکار رہی ہے، سندھ کے ایک ہندو راجہ نے ہماری عورتوں اور ہمارے بچوں کو اپنی قید میں رکھ کر ہمیں للکارا ہے ،دشمن کو بتا دوں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ بہت دیر تک،،،، لبیک،،، لبیک،،، یا حجاج لبیک،،، کے نعرے گونجتے اور گرجتے رہے۔
<===========>
حجاج کا قاصد جب محمد بن قاسم کے پاس شیراز پہنچا تو محمد بن قاسم نے بڑی تیزی سے پیغام قاصد کے ہاتھ سے لیا اور پڑھا اس کے چہرے کے تاثرات میں نمایاں تبدیلی آئی اس نے جھٹکے سے پیغام ایک طرف رکھ دیا جیسے پھینک دیا ہو۔
میرا چچا اتنا بوڑھا تو نہیں ہوا۔محمد بن قاسم نے کہاپھر اس کا دماغ سوچنے سے معذور کیوں ہو گیا ہے؟کیا سندھ پر حملے کے لئے کوئی اور سالار نہیں تھا؟کیا وہ بھول گیا ہے کہ میں سرکش قبائل کی سرکوبی کے لئے جا رہا ہوں؟

9 months, 1 week ago

اَلْحَمْدُ سے لیکر وَالنَ٘اسِ تک مجھے ایک آیت بھی نہ ملی جس میں قرآن نے یہ کہا ہو یہود و نصارٰی کے سامنے سر جھکا کے جیو ⚔️⚔️⚔️

ہمیں تو کوئی ایسی آیت نہیں ملی ۔

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب 💫💫💫
سکھاتی نہیں مسلمان کو غلامی کے آداب 🔥🔥🔥

❤️ ایک اور جگہ فرمایا ❤️

نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا 🇸🇦🇸🇦

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے کہ وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا 😍

( کچھ وقت کی خاموشی ہے پھر شور آئےگا
تمہارا صرف وقت ہے ہمارا دور آئےگا ❤️

🌹🌺 سب درود شریف پڑھیں 🌺🌹

♡اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ♡🌹🌹🌹
@Rahmatul_Lil_Aalameen

9 months, 2 weeks ago

وہ ہمارے مسافروں کو رہا کردے، تمام مال و اموال جانور اور حبشی غلام واپس کر دے۔ حجاج نے محمد بن ہارون کو یہ بھی لکھا کہ اپنے جاسوس سندھ میں داخل کر دے اور جو جاسوس پہلے ہی وہاں موجود ہیں انہیں اور تیز کر دے۔حجاج بن یوسف راجہ داہر پر بجلی بن کر گرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا ،آخر اسے ایسا جواز مل گیا کہ وہ انتقام کا شعلہ بن گیا ،اس کا چین اور سکون اور اس کی نیند اڑ گئی، راجہ داہر کے جواب کا انتظار کئے بغیر اس نے سندھ پر حملے کا منصوبہ بنانا شروع کردیا ۔
راجہ داہر کا جواب آگیا قاصد نے حجاج بن یوسف کو بتایا کہ وہ مکران کے حاکم محمد ہارون کے ایک اعلی افسر کے ساتھ سندھ کی راجدھانی برہمن آباد گیا راجہ داہر وہاں تھا، اسے حجاج کا تحریری پیغام دیا گیا جو عربی جاننے والے ایک آدمی نے پڑھ کر داہر کو اس کی زبان میں سنایا ،داہر کا ردعمل کچھ بھی نہ تھا جیسے وہ اپنی رعایا میں سے کسی نادار آدمی کی عرض سن رہا ہو، محمد بن ھارون کے ایلچی کو داہر نے اس کے رتبے کے مطابق تعظیم نہ دی، اس کے رویے میں بے رخی تھی اس نے مختصر سا جواب دیا کہ جہازوں کو بحری قزاقوں نے لوٹا ہے اور سندھ کا حکم اور قانون ان پر نہیں چلتا۔
مشہور ومعروف مورخ محمد قاسم فرشتہ نے یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔ حجاج کے خط کا جواب جو داہر نے دیا تھا وہ بھی فرشتہ نے لکھا ہے ،فرشتہ لکھتا ہے کہ حجاج کا خط محمد بن ہارون کا خاص ایلچی لے کر داہر کے پاس گیا اور داہر نے یہ جواب دیا کہ جس قوم نے جہازوں کو لوٹا اور مسافروں کو قید میں رکھ لیا ہے وہ شوکت اور قوت رکھنے والی قوم ہے ،اور سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ تم اس قوم سے اپنا مال اور قیدی واپس لے لوگے۔
فرشتہ لکھتا ہے کہ راجہ داہر کے ان الفاظ کا دراصل مطلب یہ تھا کہ تمہارے جہازوں کو ہم نے لوٹا ہے اور تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷
حجاج بن یوسف نے خلیفہ ولید بن عبدالملک کو ابھی تک اس حادثے سے بے خبر رکھا ہوا تھا۔ جب داہر کا جواب آگیا تو حجاج نے خلیفہ کے نام بڑالمبا پیغام لکھا اور داہر کا جواب بھی اس میں شامل کیا ،اس نے خط میں پورا واقعہ لکھا آخر میں اس نے لکھا کہ اسے سندھ پر حملے کی اجازت دی جائے۔
ایوان خلافت سے جواب آیا کہ حملہ نہ کیا جائے ۔
خلیفہ ولید نے کوئی وجہ نہ لکھی کہ حملہ کیوں نہ کیا جائے۔
حجاج اس جواب سے جل اٹھا اس نے خلیفہ کو ایک اور خط لکھا جس میں اس نے خلیفہ کی غیرت اور اس کے وقار کو بیدار کرنے کی کوشش کی ،اس نے یہ بھی لکھا کہ ان جہازوں میں جو عورتیں آ رہی تھی ان میں بیشتر عمرہ کرنے غالبا حج کے لئے آ رہی تھیں، اور اب وہ ایک ہندو راجہ کی قید میں ہیں۔
امیرالمومنین!،،،، حجاج نے آخر میں لکھا۔۔۔ معلوم ہوتا ہے آپ یہ سوچ کر حملے کی اجازت نہیں دے رہے کہ اتنی دور محاذ کھولنے پر بہت خرچ اٹھے گا ،میں امیرالمومنین سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس حملے اور اس کے بعد کی جنگ پر جو خرچہ آئے گا میں اگر زیادہ نہیں تو اس سے دوگنی رقم خزانے میں جمع کروا دوں گا ۔
خلیفہ نے حملے کی اجازت دے دی۔
حجاج نے اسی وقت فوج کے ان دستوں کو جنہیں اس نے پہلے ہی سندھ کی طرف کوچ کرنے کے لئے تیاری کا حکم دے رکھا تھا کوچ کا حکم دے دیا ،اس فوج کا سپہ سالار عبداللہ بن نبہان تھا ،کوچ بہت ہی تیز تھا دیکھتے ہی دیکھتے عبداللہ بن نبہان دبیل پہنچ گیا۔
حجاج سے ایک بھول ہو گئی تھی اسے جاسوسوں نے راجہ داہر کی جنگی طاقت کی صحیح رپورٹ دی تھی مگر اس نے داہر کی فوج کی لڑنے کی اہلیت کا صحیح اندازہ نہ کیا۔ وہ خوش فہمی میں مبتلا رہا۔
دوسری چوٹ یہ پڑی کہ عبداللہ بن نبہان پہلے روز ہی شہید ہو گیا ۔ مورخ لکھتے ہیں کہ عبد اللہ نے شجاعت اور قیادت میں کوئی کسر نہ رہنے دی لیکن وہ شہید ہو گیا اور فوج میں کھلبلی بپا ہو گئی، اس سے داہر کی فوج نے یہ فائدہ اٹھایا کہ قلعے سے باہر آکر بڑا شدید جوابی حملہ کیا مسلمان اس حملے کی تاب نہ لاسکے اور پسپا ہوگئے۔
حجاج نے یہ صدمہ سہ لیا، اور ایک اور سالار بدیل بن طہفہ کو سندھ پر حملے کا حکم دیا۔ حجاج بن یوسف نے اس شکست کا صدمہ سہ تو لیا لیکن اس نے نیند چین اور سکون اپنے اوپر حرام کرلیا ۔وہ طبعاً غصیلا آدمی تھا جابر تھا ۔اس کی فطرت میں قہر بھرا ہوا تھا ۔ظلم و تشدد پر اتر آتا تو لگتا تھا جیسے یہ شخص رحم کے نام سے بھی واقف نہیں۔
مسلمان قبائل کے وہ سردار جو خلافت سے باغی ہو مکران بھاگ آئے یہاں آباد ہو گئے تھے کسی نہ کسی شرط پر واپس اپنے وطن جا سکتے تھے، لیکن یہ حجاج بن یوسف کا خوف تھا جو انھیں واپس نہیں جانے دے رہا تھا، یہ سردار اموی خلافت کے ہی باغی تھے وہ جانتے تھے کہ خلیفہ شاید بخش دے، حجاج نہیں بخشے گا۔وہ حجاج جس نے خلیفہ ولید بن عبدالملک بھی دوبکتا تھا شکست کو کس طرح برداشت کر لیتا،اسے جب اطلاع ملی تھی کہ اس کا بھیجا ہوا سالارعبداللہ بن نبہان شہید ہوگیا اور فوج بری طرح پسپا ہوئی ہے تو اس نے ایک اور سالار بدیل بن طہفہ کو بلایا اور اسے سندھ پر حملے کا حکم دیا۔

We recommend to visit

وانهُ لجهادٍ نصراً او إستشهاد✌️

Last updated 8 months, 2 weeks ago


‌بزرگ ترین‌ چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
‌‌

Last updated 4 days, 15 hours ago

⚫️ Collection of MTProto Proxies ⚫️

🔻Telegram🔻
Desktop v1.2.18+
macOS v3.8.3+
Android v4.8.8+
X Android v0.20.10.931+
iOS v4.8.2+
X iOS v5.0.3+


🔴 تبليغات بنرى
@Pink_Bad

🔴 تبلیغات اسپانسری
@Pink_Pad

Last updated 1 month, 4 weeks ago