بزرگ ترین چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
راه ارتباطی ما: @WatchCarton_bot
Last updated 6 дней, 1 час назад
⚫️ Collection of MTProto Proxies ⚫️
?Telegram?
Desktop v1.2.18+
macOS v3.8.3+
Android v4.8.8+
X Android v0.20.10.931+
iOS v4.8.2+
X iOS v5.0.3+
? تبليغات بنرى
@Pink_Bad
? تبلیغات اسپانسری
@Pink_Pad
Last updated 2 месяца, 3 недели назад
لیکن اب وہ یہاں تو یونیفارم پہن کر آرہا ہے لیکن گھر میں کیا ہے؟ گھر میں چونکہ عام لباس میں ہے، اس لئے اس کی کوئی تربیت نہیں ہے، اس لئے اس کو سکھانا یہ ایک مستقل موضوع ہے۔
*? مربی کیسا ہو ؟*
ایک ایسا مربی ہر ادارے کے اندر ہونا چاہیئے جو کم سے کم 35 سال کا ہو اور اللہ اگر توفیق دے تو وہ ساتھ میں صاحب نسبت بھی ہو اور صاحب فہم بھی ہو اور وہ بڑوں کا صحبت یافتہ بھی ہو، اس کو ادارے میں باقاعدہ اپوائنٹ کرنا چاہیئے، اس کا کام صرف تربیت ہو، اس کا کام صرف تربیت پر نگاہ رکھنا ہو اور پھر اس کے بعد وہ بچوں کی تربیت کرے، پھر وہ بچوں کو گائیڈ کرے گا کہ دیکھو ! سوشل میڈیا استعمال کرنا ہے مگر کیسے ؟
دیکھیں !! آپ بند نہیں کر سکتے، آپ کہیں ہم ختم کردیں، یہ ناممکن ہے، اس کا ٹریک کیسے چینج کریں؟ اس کو کیسے متوجہ کریں؟ تو یہ ساری چیزیں ایک تربیت کرنے والے سے تعلق رکھتی ہیں، ساتھ میں والدین کو لے کر چلے۔
*? روضہ اطفال کا فقدان*
ایک بات اس میں ضمنا عرض کروں کہ ہمارے ہاں اس بات کی بڑی کمزوری ہے کہ ہم شعبہ حفظ میں تو بچے کو لیتے ہیں لیکن شعبہ حفظ سے پہلے ہمارے پاس کوئی شعبہ کل وقت کا خاطر خواہ نہیں ہے، مونٹیسری کا جو شعبہ ہے جس کو ہم "روضہ" کا شعبہ کہتے ہیں، کندرگارٹن کا شعبہ کہتے ہیں، اس میں اصل بیس (بنیاد) بنائی جاتی ہے، اس میں بچے کی تربیت کی جاتی ہے، اس میں بچوں کو اخلاقیات سکھائے جاتے ہیں، آداب زندگی کا یہ زمانہ ہے جس میں بچوں کو بنیادی طور پر تین چیزیں سکھانی ہوتی ہیں :
1- میں کیا ہوں ؟
2- میرے ساتھ کون ہے؟
3- میں کس ماحول کے ساتھ جڑا ہوا ہوں ؟
1- What am I?
2- Who is with me? What I have?
3- What environment am I connected with?
پھر اس ماحول کا اخلاقی طور پر، دینی طور پر کیا مزاج ہے؟ وہ اس کو سمجھنا چاہیئے، باقی ماحول کے اندر اس کی زبان بھی آجاتی ہے، کس ماحول کے اندر کیا زبان ہے؟ یہ وہاں کی چیزیں ہیں، یہ اس کے ماحول کے ذیلی چیزیں ہیں، یہ تین چیزیں اس کی بنیاد ہیں؛
یعنی ¹ اس کی شخصیت، ² اس کے ساتھ کون ہے، یعنی اس کا گھرانہ، اس کا محلہ اور ³ تیسرا وہ جس ماحول سے جڑا ہوا ہے جس میں مختلف زمانے ہیں، مختلف چیزیں ہیں، یہ ہماری تربیت کی چیزیں ہیں عام طور پر ہم ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں کرتے۔
*? روضہ کے فقدان کا خمیازہ*
پھر ہمیں اس حوالے سے ایک نقصان کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے کہ بچہ جب وہ ٹین ایج (Teenage) میں داخل ہوتا ہے یعنی 13 سال کی عمر میں داخل ہوتا ہے تو وہ پھر ہاتھ سے نکلنا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ زندگی کے 12 سال اس کے یا 13 سال ہم نے اس کی بیس نہیں بنائی ہوتی اور آپ کو پتہ ہے کہ یہ جو ٹین ایج ہے یعنی 13 سے 19 کے درمیان کا جو زمانہ ہے، یہ سب سے زیادہ خطرناک زمانہ ہوتا ہے چونکہ بچہ مراھق بن جاتا ہے، قریب البلوغ ہوجاتا ہے، بلوغت کے آثار آجاتے ہیں اور پھر اس کے بعد یہ جو بچہ ہے، یہ ایسی چیزوں میں جا کر لگ رہا ہوتا ہے کہ والدین روک نہیں سکتے، اچھا یہ جو بچہ ہوتا ہے، اس کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے یہ گھر کی ضرورت بن جاتا ہے، سودا سلف لارہا ہے، چیزیں لارہا ہے، سب کچھ لارہا ہے، اب چونکہ ذہنی طور پر اس کو ہم نے سیٹ نہیں کیا تو یہ فضول خرچی بھی کرے گا، اسراف بھی کرے گا، ضد بھی کرے گا، پیسے بھی کھا جائے گا یعنی کھانے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ کوئی چوری کرے گا بلکہ چیز لینے گیا تو گھر کا سامان لینے گیا، اپنے لئے ایک دو چیزیں خرید لیں، کوئی بسکٹ خرید لیا، کوئی چپس خرید لیا، احساس ذمہ داری جو اس کو بچپن سے اس کے اندر ایک چیز پیدا کرنی تھی، اطاعت پیدا کرنی تھی، کفایت شعاری پیدا کرنی تھی۔
یہ جو آداب اور صفات زندگی تھی، چونکہ پیدا نہیں کی تو اب ٹین ایج میں جا کے والدین سر پکڑ کے بیٹھتے ہیں۔
سو اگر اس عمر کو اگر برباد کردیا جائے تو آگے کی پوری زندگی بچے کی پھر برباد ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد کوئی اگر اس کو ٹریک مل جائے، کوئی تبلیغ کا ماحول مل جائے، کسی اللہ والے کی صحبت مل جائے، کسی کا کوئی ایسا ماحول مل جائے تو اس سے تو اس کی تربیت ہوجاتی ہے ورنہ اس کی تربیت بڑی مشکل ہوتی ہے، اللہ تعالی بس ہمیں سمجھ نصیب فرمائے اب اس میں اگلی بات یہ ہے کہ ان بچوں کا یہ جو ماحول چل رہا ہے، اس سے کیسے ان کو یعنی سیٹ کرنا ہے، اس کا جواب میں ان شاءاللہ آپ کو اگلے صوتی پیغام میں دے دیتا ہوں جزاکم اللہ خیرا
*? Imam Sufyan Saori Institute (SSI)*
(Your Child's Intellectual World)
t.me/Tarbiyate_Aulad
*? نفحات الریـــــــان
?️* مفتی سفیـان بلنـد
رئیس دارالریان اکادمی آن لائن
شریعہ ایکسپرٹ آف حلال فوڈ، بزنس اینڈ ایجوکیشن
*? بچوں کی فکری و عملی تربیت اور اہداف*
آپ نے سوال کیا کہ آج کل میڈیا کو دیکھ کر خاص کر سوشل میڈیا میں مختلف ویڈیوز کو دیکھ کر بچوں کے ذہن میں مختلف چیزیں آتی ہیں اور بہت حساس موضوعات بھی آجاتے ہیں اور عام طور پر والدین اس کی اس حوالے سے دینی رہنمائی نہیں کرپاتے اور چونکہ کوئی ان کو ایسا ماحول ملا بھی نہیں ہوتا تو اس صورت کے اندر کیا کرنا چاہیئے؟
آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کسی خاتون کا سوال ہے جو اپنے بچوں سے متعلق پوچھ رہی ہیں !!
یہ تو بہت تفصیلی موضوع ہے کہ بچوں کی تربیت کیسے کی جائے اور کیا کیا جائے ؟
البتہ اس حوالے سے ایک مختصر سی بات میں عرض کر دیتا ہوں جو والدین اور اساتذہ دونوں کے لئے ہے۔
*? بچپن کی تربیت*
بنیادی چیز یہ ہے کہ بچے کو بچپن سے یعنی جب اس کا بولنے کا زمانہ شروع ہو، اس کو اس وقت سے ایک آئیڈیل دینا چاہیئے، اس کو سمجھانا چاہیئے ہمارے لئے آئیڈیل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین میں جو ایسے صحابہ ہیں جن کے بچپن کے احوال ہمیں ملتے ہیں جیسے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما
اسی طرح انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والتسلیمات ہیں۔
ان کے بچپن کے واقعات تو بچوں کو بچپن سے ایمان کے ساتھ اور دینی سوچ کے ساتھ سنانے چاہیئے، ان کو آئیڈیل متعارف کرانا چاہیئے، ہم اپنے بچوں کو جب آئیڈیل متعارف نہیں کراتے تو ہمارے بچے پھر جب عملی زندگی میں آتے ہیں تو ان کو کچھ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ ہم کس کو آئیڈیل بنائیں ؟
*? بچوں کو بچپن سے آئیڈیل دیں !*
دوسرا بچوں کو کسی بھی ایک شخصیت جو آپ سمجھتے ہیں، بچوں کو بچپن سے آئیڈیل دیں اور دیکھیں آئیڈیل اگر اپ کو تلاش کرنا ہے تو صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے دور سے ہی تلاش کریں، ان کو گائیڈ کریں رہنمائی کریں کہ اس طرح بننا ہے، وہاں آپ کو مختلف علوم اور فنون کے ماہرین ملیں گے اور صرف ایک آئیڈیل کافی نہیں ہے بلکہ آپ بچوں کو مختلف شعبوں کے حساب سے بتاسکتے ہیں چونکہ اس تربیت میں کمی ہوتی ہے، جب بچپن سے ذہن سازی نہیں ہوتی، والدین کا ذہن نہیں ہوتا تو اب جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس کو کچھ نہیں پتہ ہوتا اور اس اس میں یعنی کوتاہی رہتی ہے پھر جب وہ مختلف حالات اور واقعات دیکھ رہا ہوتا ہے تو اس کی کمزوری باقی رہتی ہے۔
*? تعلیم میں تربیت کا فقدان*
اب بچے کی تعلیم کا مرحلہ شروع ہوتا ہے، کم قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہیں کہ ہمارے ہاں تعلیم یعنی حروف تو پڑھا دیئے جاتے ہیں، نقوش تو پڑھا دیئے جاتے ہیں لیکن تربیت کا فقدان ہے یعنی مسائل پڑھا دیئے، عبارات پڑھا دی، گرامر پڑھا دی، یہ سب چیزیں پڑھا دی جاتی ہیں لیکن "صفات" پر متوجہ کرنا .... "اخلاقیات" پر متوجہ کرنا .... "آداب زندگی" سکھانا .... "طور طریقے ... رہن سہن" ... بڑا چھوٹا ... کیسے کس موقع پر کیا کرنا ہے؟ کیسے بات کرنی ہے ؟ ہمارے ہاں اس پر تربیت نہیں ہے اور اس میں "بڑوں کی تربیت" میں، ان کی ذات میں کمزوری ہے تو صاف سی بات ہے بچوں کی کیسی تربیت کریں گے؟
*? ہر ادارہ میں مربی خاص کی ضرورت*
اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر تعلیمی ادارے میں جب تک بچہ اپنے تعلیم، ایم اے تک نہ کرلے یا درس نظامی تک پڑھنے والے بچوں کو ہر سال ہر یعنی روز کا ایک گھنٹہ تربیت کا ہونا چاہیئے، اس میں اس کی فکری اور عملی تربیت کروانی چاہیئے، اس کے بغیر ہم اپنے بچوں کو کنٹرول نہیں کرسکتے۔
*? تربیت کے لئے کتاب و مربی دونوں لازم ملزوم ہیں !*
تربیت کا طریقہ ہے کہ استاذ صرف کتاب نہ پڑھائے بلکہ اس کو طور طریقے سکھائے، زندگی کا رہن سہن سکھائے، یعنی صرف ہم نے مخصوص سنتوں کو سمجھا ہے کہ یہ زندگی کے طور طریقے ہیں، کھانا پینا یہ سکھا دیا !!
نہیں !! ہر چیز سکھانی ہے مثلا
¹ کپڑے کیسے پہننے ہیں ؟
² کس طرح کپڑے ہونے چاہیئے ؟ ³ کپڑے رکھنے کیسے چاہیئے؟
⁴ کپڑے کس موسم میں کیسے پہننے چاہیئے؟
⁵ کپڑے پھٹ جائیں تو اس کو کیسے کرنا چاہیئے؟
⁶ پھر ٹوپی کیا ہو؟
⁷ کیسی ٹوپی ہو؟
⁸ کیسی پہننی چاہیئے؟
⁹ کن رنگوں کی پہننی چاہیئے؟
¹⁰ سردی کے لباس ہیں گرمی کے لباس ہیں ؟
¹¹ پھر مختلف قسم کی تقریبات ہیں!!
¹² مختلف مواقع ہیں !!
¹³ آدمی کا یعنی کسی کے اگر فریم لگا ہوا ہے چشمہ ہے تو چشمہ کیا پہننا چاہیئے؟
¹⁴ کس چہرے پر کیا سوٹ کرتا ہے؟
مطلب کہ یہ ایک چھوٹی سی بات ہے، یہ تفصیلی موضوعات ہیں جو عام طور پہ ہمارے ہاں بالکل نہیں پڑھائے جاتے اور یہ چیزیں عملا پڑھانا ہے، یہ چیزیں ہماری عملی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں، ہم بچوں کو کہتے ہیں کہ یونیفارم پہن کر آجاؤ ! ٹھیک ہے، میں منع نہیں کر رہا کہ یونیفارم نہیں ہونا چاہیئے !....
16- جس بچے کو اکیلا کھانا دیا جاتا ہے، وہ اجتماعی زندگی سے عاری ہوجاتا ہے۔
17- جس بچے کو بچپن سے آئیڈیل شخصیت کا تعارف نہ دیا جائے، وہ ساری زندگی آئیڈیل کی تلاش میں گذارتا ہے۔
18- جس بچے کے والدین باہم بحث مباحثہ کرتے ہیں، وہ ساری زندگی الجھن اور نفسیات کا شکار رہتا ہے۔
19- جس بچے کو بچپن سے خاندان میں نہ رکھا جائے، وہ بڑے ہو کر اغراض و انفرادی مزاج کا بن جاتا ہے۔
20- جس بچے سے بچپن میں خریداری نہ کروائی جائے، وہ بڑے ہو کر کامیاب تاجر مشکل سے بنتا ہے۔
21- جن والدین میں کسی سبب سے علیحدگی ہوجائے، ان کے بچے ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔
22- جس بچے میں بچپن سے خوف خدا پیدا کردیا جائے، وہ موت تک ایمان والا رہتا ہے۔
23- جس بچے کے معمولی کام کی تعریف نہ کی جائے، وہ بڑے ہوکر غیر معمولی کام کرنے کی ہمت نہیں پاتا۔
24- جو بچے والدین کے ساتھ دسترخوان پر کھانا میں شریک نہیں رہتے، وہ والدین کے مزاج سے بہت کم ہم آہنگ ہوتے ہیں۔
25- جس بچے کی جائز بات پوری نہ کی جائے، وہ بد تمیز بن جاتا ہے۔
*? اہم بات
میرے والد ماجد ڈاکٹر بلند اقبال صاحب زید مجدہم اور مرشد اول عارف باللہ حضرت واصف منظور صاحب نور اللہ مرقدہ اور مرشد ثانی حضرت مفتی واجد علی بیگ زید مجدہم ، تینوں کے مشترکہ شیخ اور میرے محسن و مربی عارف باللہ حضرت سید رضی الدین احمد فخری رحمہ اللہ کی علم نفسیات پر اہم کتاب "جو تم مسکراؤ تو سب مسکرائیں"* والدین ضرور مطالعہ کریں، علم نفسیات پر یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔
*? ملاحظہ ?
ان 25 اصول نفسیات کی عمدہ تصمیم (گرافکس) بھی ادارہ کے شعبہ تصمیم الریان سے کروائی ہے تاکہ ہمارے تعلیمی ادارے* بلکہ والدین بھی اس کا رنگین پرنٹ نکال کر اپنے ہاں لگا سکیں، اللہ تعالی ہمیں اولاد جیسی نعمت کا حق ادا کرنے والا بنائے آمین یارب العالمین
*? معهد الإمام سفیان الثوری*
(للعلوم الدینیة والفنون العملیة)
t.me/Tarbiyate_Aulad
*? بچوں کی تربیت اور ان کی نفسیات
✍️* مفتی سفیان بلند
رئیــس دارالـریـان اکـادمی آن لائن
مہتمم مدرسہ أبناء الإسلام اکادمی
ہماری اولاد؛ ہماری دنیا ? ? ہیں، ہم اپنی اس دنیا کو خود اپنے مختلف رویوں سے یا آباد کرتے ہیں یا برباد کرتے ہیں، احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے لئے بہت زیادہ ترغیب اور توجہ دلائی گئی ہے۔
? ایک روایت میں اولاد کی تربیت کی بابت ارشاد نبوی ہے :
مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ (رواہ الترمذی عن عمرو بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث: 1952)
"حسن ادب سے بہتر کسی باپ نے اپنے بیٹے کو تحفہ نہیں دیا"۔ (باب : اولاد کو ادب سکھانا)
? ایک دوسری روایت میں بیٹیوں کی تربیت سے متعلق ارشاد نبوی ہے :
من كانت لهُ بِنتٌ فأدَّبَها فأحسنَ تأديبَها، وعلَّمَها فأحسَنَ تعليمَها، وأسبغَ عليها من نعمِ اللهِ الَّتي أسبغَ عليهِ، كانت لهُ سِترًا وحجابًا مِنَ النّارِ (رواہ أبو نعيم، حلية الأولياء (٥/٦٧) عن عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنه وھذا الحدیث غريب من حديث الأعمش تفرد به الأموي عن طلحة وأخرجه الطبراني (١٠/٢٤٣) (١٠٤٤٧)، وأبو نعيم في حلية الأولياء ٥/٥٧ واللفظ له)
"جس کی بیٹی ہو اور وہ اس کی اچھی تربیت کرے، اسے اچھی طرح تعلیم سکھائے اور اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں میں سے اس پر اچھی طرح صرف کرے، وہ بیٹی اس کے لئے جہنم سے پردہ اور آڑ ہوگی"۔
تربیت اولاد دراصل تعمیر مستقل ہے، یہ آپ کے مستقل کی تعمیر ہے، اگر آپ باپ ہیں تو اپنا جانشین تیار کررہے ہیں اور اگر ماں ہیں تو اپنا سہارا کھڑا کررہے ہیں، بچوں کی تربیت میں ان کی شخصیت کی نفسیاتی تربیت ضروری ہے، والدین کے بعض رویوں سے اولاد ٹوٹ جاتی ہے، بکھر جاتی ہے، منتشر ہوجاتی ہے، احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہے، چڑچڑاپن، ضد، ہٹ دھرمی، تناؤ اور کئی نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتی ہے، سو والدین کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ان رویوں سے گریز کریں، اس حوالے سے *? امام سفیان ثوری انسٹیٹیوٹ کے تحت آن لائن ⛺ ریان سمر کیمپ ⛺(⛱️ Rayyan Summer ☀️Camp) جون جولائی میں شروع کیا تو مقصد یہی تھا کہ بچوں کی فکری تربیت کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی متوجہ کیا جائے کہ کیسے اپنی اولاد کو لیکر چلنا ہے، (الحمد للہ ! ریان سمر کیمپ میں داخلے جاری ہیں اور اب تک چند کلاسیں ہوئی جن میں نونہالان امت اور معماران ملت کی دلچسپی نے ہمارا شوق بڑھا دیا، سو اس پر بہت زیادہ کام ہورہا ہے اور اس نوع کی فکری کیمپ آئندہ بھی ہوتے رہیں گے) سر دست بچوں کی تربیت اور ان کی نفسیات سے متعلق 25 اہم اصول نفسیات مختلف ارباب تربیت و اہل علم کے توسط سامنے آئے، ان کو سامنے رکھنا ازحد ضروری ہے، اپنے مستقبل کو سنوارنا ہے تو اولاد پر جان، مال، وقت لگانا ہے* ان اصول کو بغیر کسی تفصیل و تشریح کے لکھا جارہا ہے، ہر ہر نکتہ ایک مستقل مجلس اور تفصیلی نشست کا متقاضی ہے مگر قاری کو تحریر کی طوالت سے بچانے کے لئے تحریر کو مختصر کیا جارہا ہے۔
*? 25 اصولِ نفسیاتِ اولاد
01 - جس بچے سے شفقت کا معاملہ کیا جاتا ہے، وہ فرماں بردار بن جاتا ہے۔
02- جس بچے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اس میں خود اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے۔
03- جس بچے سے سچائی کا معاملہ کیا جاتا ہے، وہ انصاف پسند ہوجاتا ہے۔
04- جس بچے کی مانگ اصرار کرنے اور رونے کے بعد پوری کی جاتی ہے، وہ ضدی ہوجاتا ہے۔
05- جس بچے کو تنبیہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے ڈرایا جاتا ہے، وہ متقی بن جاتا ہے۔
06- جس بچے کی ہمیشہ مار پیٹ کی جاتی ہے، وہ باغی ہوجاتا ہے۔
07- جس بچے پر بھروسہ نہیں کیا جاتا، وہ دھوکے باز بن جاتا ہے۔
08- جس بچے پر شفقت نہیں کی جاتی، وہ مجرم بن جاتا ہے۔
09- جس بچے کا ہر وقت مذاق اڑایا جاتا ہے، وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
10- جس بچے پر ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے، وہ لڑاکا بن جاتا ہے۔
11- جس بچے کو موہوم چیزوں سے ڈرایا جاتا ہے، وہ بزدل بن جاتا ہے۔
12- جس بچے پر ہر وقت تنقید کی جاتی ہے، وہ نافرمان ہوجاتا ہے۔
13- جس بچے پر ہر وقت غصہ کیا جاتا ہے، وہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے اور وہ بھی ذرا ذرا سی بات پر غصے کا عادی ہوجاتا ہے۔
14- بچے کو مار پیٹ کرنے والے مربی (تربیت کرنے والے) سے اُنسیت کے بجائے بُعد* پیدا ہوتا ہے۔
*? کچھ مزید اصول
راقم نے اپنے والدین و مشائخ و اساتذہ سے کچھ مزید اصول نفسیات سیکھے ہیں۔
15- جس بچے کی بات سنی نہیں جاتی ہے، اس میں تنہائی کا مزاج* پیدا ہوجاتا ہے۔
بچے جیسے ہی سکول سے واپس آتے ہیں ان کے پاس شیئر کرنے کے لیے بہت سی باتیں ہوتی ہیں جیسے " آج ٹیسٹ کیسا ہوا ، فلاں بچے یا بچی سے لڑائی ہو گئی ، فلاں دوست نے ایسا کہا ، فلاں ٹیچر نے یہ سمجھایا ، آج ہمیں ڈانٹ پڑی ، فلاں ٹیچر نے ہماری غلطی کو اگنور کیا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ " ۔
عموماً بچوں کی واپسی جب ہوتی ہے تو ماں یا تو کچن میں ہوتی ہے یا کچن سے فری ہو کر کچھ دیر سستانا چاہتی ہے ۔۔اس لیے بچوں کی ان چھوٹی چھوٹی اور معصوم باتوں ( جو بچے کے لیے بہت اہم اور بڑی ہوتی ہیں ) کو سن نہیں پاتی یا انہیں خاموش کروا دیتی ہے کہ "جاؤ یونیفارم بدلو ، کھانا کھاؤ اور مجھے تنگ نہ کرو " ، ٹھیک ہے ماں بھی تھکی ہوتی ہے مگر بچوں کو اگر توجہ سے سن لیا جائے اور ان کے ہر سوال کا ایسا جواب دے دیا جائے جو ان کی الجھن کو سلجھا دے اور انہیں پرسکون کر دے تو یقین کیجیے آپ ان کی ماں کے ساتھ ساتھ دوست اور آئیڈیل بھی بن جائیں گی ورنہ آپ کی اگنورنس ان کو غیروں کی جانب متوجہ کرے گی۔۔۔۔
سکول میں کی گئی منفی تنقید کے اثر کو ایک ماں ہی بہترین طریقے سے زائل کر سکتی ہے اور مثبت تنقید کو پراثر بھی ماں ہی بنا سکتی ہے ، بچے کے معصوم ذہن پر کس چیز کو راسخ کرنا ہے اور کس کا سایہ تک نہیں پڑنے دینا۔۔۔یہ ماں سے بہتر کون کر سکتا ہے ؟
آپ کے بچے پر انویسٹ کیے گئے چند منٹس اس کی شخصیت کو نکھار سکتے ہیں اور آپ کی قدر کو بھی بڑھا سکتے ہیں ۔۔۔۔
بچوں کی باتوں پر فوراً چونک کر ری ایکٹ نہیں دینا۔۔بلکہ ہر بات کو توجہ اور تحمل سے سن کر ان کی عمر کے مطابق تسلی بخش جواب دینا ہے ۔۔آپ کا چونکنا ان کو ریزرو بنا سکتا ہے کہ شاید یہ بات ماں کو ناگوار گزری ہے اس لیے آئندہ ان کو ایسا کچھ نہیں بتانا۔۔۔انہیں شیئرنگ میں آزاد رہنے دیں۔۔ججمنٹ کا خوف انہیں بہت کچھ چھپانے پر مجبور کر سکتا ہے ۔۔
ان معصوموں کو دیا گیا وقت آپ کے بڑھاپے کی انوسٹمنٹ ہے ۔۔جب آپ کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہو گا اور ان کے پاس وقت کی قلت ہو گی ۔۔۔
اپنی اولاد کی پرورش کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی زور دیں۔۔!
دو ماہ قبل مجھے والد کی بیماری کی وجہ سے رات گئے ہسپتال جانا پڑا۔ راستے میں ایک ویران جگہ پر پٹرول ختم ہونے کی وجہ سے میری گاڑی رک گئی۔ میں نے بھائی کو فون کیا، اسے آنے میں کم از کم گھنٹہ لگنا تھا۔ میں انتظار کرنے لگی۔
کچھ دیر بعد وہاں سے سترہ اٹھارہ سال کا ایک لڑکا بائیک پر تیزی سے گزرا۔ مگر گاڑی سے کچھ آگے جانے کے بعد وہ رکا اور واپس آنے لگا۔ مجھے خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی، میں نے گاڑی لاک کی اور آیۃ الکرسی پڑھنی شروع کر دی۔ وہ کچھ فاصلے پر رکا اور ہاتھ کے اشارے سے کہا : ”کیا ہوا؟“ میں نے کہا پٹرول ختم ہو گیا ہے۔ اس نے پوچھا : ”بوتل ہے آپ کے پاس؟“ اتفاق سے گاڑی میں ڈیڑھ لٹر والی خالی بوتل موجود تھی جو میں نے اسے دے دی۔ وہ بائیک ٹینک سے اس میں پٹرول بھرنے لگا۔ دو تین منٹ بعد اس نے مجھے بوتل تھمائی اور بولا : ”احتیاط کیا کریں، تھوڑا سا آگے پٹرول پمپ ہے، وہاں تک چلی جائیں۔“ اور چلا گیا۔
مجھے نہیں معلوم وہ کون تھا، کہاں سے آیا تھا۔ ہاں جب بوتل بھر رہا تھا تب اسے ایک فون آیا۔ مکمل سناٹا تھا، سو مجھے کالر کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ غالباً اس کی امی تھیں۔ ”وہاج بیٹے کہاں رہ گئے ہو؟“ اس نے کہا : ”راستے میں ہوں، بس آ رہا ہوں۔“ میں نے اسے پٹرول کی قیمت کی پیشکش کی مگر وہ کہنے لگا : ”آپ مجھے اپنا بھائی سمجھیں۔“
میں ششدر رہ گئی۔ ہر مرد ایک سا نہیں ہوتا۔ ہمیں من حیث القوم ایسے ہی با کردار مردوں کی ضرورت ہے جو اپنی عورتوں کو تحفظ دینا جانتے ہیں۔ موقع کی تلاش میں نہیں ہوتے۔ اس ماں کو سلام جس کی تربیت نے ایسا نوجوان جنم دیا.....
منقول
t.me/Tarbiyate_Aulad
ننھے بچے جب دانت کاٹیں،ماریں تو پہلے پہل ہم ہنس پڑتے ہیں۔ بچے کو مثبت توجہ بھی ملتی ہے اور یہ پیغام بھی کہ میں نے بہت عمدہ کام کر لیا۔ پہلی دفعہ سے بالکل اچھی بری کوئی توجہ نہ دیں۔ فوراً کوئی اور بات شروع کر کے دھیان بٹا دیں۔ بالفرض کسی بھی وجہ سے بچے کو مارنے کی عادت پڑ گئی تو اب کیا کریں۔
بچہ جب مارے، اسکے ہاتھ تھام لیجیے۔ نرم لیکن مضبوط۔ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نرم اور پختہ لہجے میں کہیے کہ “مارنے کی اجازت نہیں ہے۔” آپ اچھے بچے ہیں اور اچھے بچے آرام سے ہاتھ لگاتے ہیں۔ یوں۔۔" اور انہیں نرمی سے ہاتھ لگا کر سمجھائیے۔۔ کبھی نہ کہیں کہ بد تمیز ہو، ہاتھ چلتا ہے، کوئی بھی برے الفاظ منہ سے نہ نکلنے دیں۔ بچے کی حرکت کو غلط کہیں، بچے کو لیبل نہ کریں۔
“نہ مارو” کے بجائے “بیٹا، یوں آرااام سے ہاتھ لگاتے ہیں” کہیں اور ماڈل کر کے بتائیں۔
بچے کو جس بھی بات پر غصہ ہے، اسے انکریج کریں کہ الفاظ استعمال کرے۔ اس چیز میں بچے کی مدد بھی کریں۔ “آپ کا دل نہیں تھا کھلونہ شیئر کرنے کا؟
آپ غصہ ہیں؟
آپ ہرٹ ہیں چھوٹی نے آپکی سٹرابیری کھا لی؟”
یوں اسکی فیلنگز ایکنالج بھی ہوں گی، اور ہاتھ کے بجائے زبان کے استعمال کا بھی پتہ چلے گا۔
جب موڈ اچھا ہو، رات کو کہانی سناتے وقت، گاڑی میں کہیں ڈرائیو کے دوران بچے سے اس بارے میں بات کیا کیجیے۔کہانی سنا کر پیغام بچے کے گوش گزار کرنا بہترین طریقہ ہے۔
بچے کو سمجھائیں: ہاتھ اللہ نے ہمیں اس لئے دیے ہیں کہ ہم اپنا کام کریں یا دوسروں کی ہیلپ کریں۔ یہ جملہ بچے کو ہر ہر بار یاددہانی کروائیں کہ ہاتھ کے بس دو ہی مقاصد ہیں: اپنے کاموں کے لئے، دوسروں کی ہیلپ کے لئے۔
بچے کو بہت شروع سے چار ایموشنز سکھائیے: کبھی اپنے چہرے کے ایکسپریشنز، کبھی ڈرائنگ سے، کبھی کارٹون کی مدد سے۔
خوشی
اداسی
غصہ
حیرانی
یہ چار ایموشنز از بر ہو جائیں۔ جب مارے تو آپ بتائیں کہ اس طرح دوسرا بندہ/بچہ اداس ہو جاتا ہے۔ ساتھ اداس چہرہ بنائیے۔ "کیا آپکو کوئی مارے تو اچھا لگتا ہے؟" نہیں! اداس ہونا اچھا لگتا ہے؟ نہیں! ہمیں کسی کو ہرٹ نہیں کرنا ہوتا کیونکہ ہاتھوں کے دو ہی مقاصد ہوتے ہیں۔ ۔۔ الخ
جو اصول بنائیں اس پر مستقل مزاجی انتہائی اہم ہے۔ جو کام غلط ہے وہ پہلی بار بھی غلط ہے، آٹھویں بار بھی، بائیسویں بار بھی۔ ہر بار سمجھانا ہے۔ ہر بار کہنا ہے “مارنے کی اجازت نہیں ہے۔” لمبا چوڑا لیکچر نہیں، پچھلی باتوں کے حوالے نہیں۔ بہن بھائیوں سے موازنہ نہیں۔ بس سیدھی کھری مختصر بات۔ سکرین ٹائم اور میٹھے کا حساب کتاب رکھیں۔ اس سے بھی بچے ہائپر ہوتے ہیں۔
سب سے اہم بات: خود مار دھاڑ اور چیخنا چلانا کم سے کم کریں۔ بچے کو مار کر کہنا کہ مارتے نہیں، اس سے اثر کم ہی ہو گا۔ چیخ کر کہنا کہ آہستہ بولو، یہ بھی بےفائدہ ہے۔ بچے کو نرمی سے ہاتھ لگائیے، ہاتھ کے بجائے زبان استعمال کیجیے تا کہ بچے یہی دیکھیں، یہی سیکھیں ان شا اللہ۔
۔۔۔۔۔۔
یہ کچھ برس پرانی تحریر ہے، جو میموری میں آئی۔ ..... ہزار بار خیال آتا ہے کہ بچوں کے ساتھ خوبصورت تعلق کی بنیاد بہت پہلے ڈالنے کا وقت ہوتا ہے۔ اس وقت ہم چیخ چلا کر، مار پیٹ کر بچوں کو خود سے دور کر دیتے ہیں، اور یہ سب اصلاح اور تربیت کے نام پر! ٹین ایج میں پہنچنے تک جب بچوں کو تعلق ہم سے بچتا ہی نہیں، پھر ہم سوچتے ہیں بچہ ہماری سنتا کیوں نہیں۔
نیّر تاباں
t.me/Tarbiyate_Aulad
گھر میں داخل ہوتے ہی بچوں سے نماز کا احتساب کرنا ۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَمَا أَمْسَى، فَقَالَ :أَصَلَّى الْغُلَامُ ؟......
میں اپنی خالہ ام المومنین میمونہ کے ہاں ٹہرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات تاخیر سے تشریف لائے اور (پہلا سوال یہ) پوچھا:أ صلى الغلام ؟ کیا چھوٹے لڑکے نے نماز پڑھ لی ہے ؟ (صحيح.سنن أبي داؤد ١٣٥٦)
عبداللہ بن عمر فرمایا کرتے:جب بچہ دائیں اور بائیں جانب میں تمییز کرنے لگ جائے تو اسے نماز سکھلانی چاہیے۔(رجاله ثقات.المصنف لابن أبي شيبة ٣٥٢٢)
✍️حافظ عبدالرحمن المعلمي
t.me/Tarbiyate_Aulad
بزرگ ترین چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
راه ارتباطی ما: @WatchCarton_bot
Last updated 6 дней, 1 час назад
⚫️ Collection of MTProto Proxies ⚫️
?Telegram?
Desktop v1.2.18+
macOS v3.8.3+
Android v4.8.8+
X Android v0.20.10.931+
iOS v4.8.2+
X iOS v5.0.3+
? تبليغات بنرى
@Pink_Bad
? تبلیغات اسپانسری
@Pink_Pad
Last updated 2 месяца, 3 недели назад