متجر بيع حسابات بيس موبايل
متجر شحن بيس موبايل
يتوفر جميع انواع حسابات بيس موبايل
المالك || @n_2_v
Last updated 2 weeks, 3 days ago
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
اسلامی حدیث، پشتو
کانال ته شه راغـلاســت
♥️لینک ثواب لپارہ نشر کئ
زما ګرانه ملګروه
?جزاك اللہ خیرا?
https://t.me/vghf232d
Last updated 2 months ago
برای تبلیغات با ای دی زیر در ارتباط باشید👇
@Pooree123
Last updated 1 week, 2 days ago
مایوس کیوں ہیں؟
آپ نے کسی انسان سے تھوڑی مانگا ہے آپ نے تو اللہ سے مانگا ہے جو ناممکن کو ممکن کر دینے پر قادر ہے ۔
آپ وہاں خاموشی سے نہیں بیٹھ جائیں گے۔ صحابہ کے بارے میں آپ خیال کریں گے یہ نافرمانی کا موقع تھا ۔ مگر یہ انکی غیر معمولی فرماں برداری ہے کہ وہ اس موقعے پر خاموش رہے اور کچھ کہا نہیں۔ ان میں سے ایک دو نے قدرے زبانی حملے کیے مگر باقی سب خاموش رہے۔ مگر انھوں نے اپنے احرام نہیں اتارے۔ پہلی بار انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی بات نہیں سنی کیونکہ وہ حج نہ کر پانے پر شدید افسردہ تھے اور کنفیوژن سے مغلوب تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے خواب دیکھا تھا کہ وہ حج کریں گے۔ اور اب وہ کہہ رہے ہیں واپس چلو ہم حج نہیں کر رہے۔ حتی کہ حضرت عمر صدمے میں تھے۔ مگر میں یہ آپکو اس لیے بتا رہا ہوں کہ دُکھ کے اس لمحے میں صحابہ کو دکھ تھا مگر رسول اللہ کو کہیں زیادہ دکھ کا سامنا تھا۔ وہ امہات المومنین سے رجوع کرتے ہیں ۔
تو یہ آپ ﷺ کے رجوع کرنے میں تسلسل ہے ۔
ہمیں بھی ماں باپ ،زوج کی ،بچوں کی ضرورت ہوتی۔
جاری ہے۔
?سورۃ الکوثر?
(پارٹ ۱)
روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر اٹھایا اور مسکرانے لگے اور فرمایا :
"میرے پاس بالکل ابھی ایک سورہ آئی ہے، اور عام طور پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قرآن آتا تو آپ اسے لینے کے بعد اسکی تلاوت فرما دیتے اور بہت کم موقعوں پر پہلے اعلان فرمایا کہ میرے پاس (خاص) وحی آئی ہے۔
ویسے تو ہمارے لیے سارا قرآن ہی خاص ہے مگر قرآن کے اندر بھی چند لمحات ایسے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ امت سمجھے کہ یہ ان میں خاص اہمیت ہے۔ کیونکہ اگر رسول االلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ویسے بھی تلاوت فرماتےتو ہم اسے سنجیدگی سے ہی لیتے کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے مگر جب وہ عام طریقے سے ہٹ کر کہتے ہیں کہ "کیا تمہیں احساس ہے کہ ابھی ایک سورہ نازل ہوئی ہے" اسکی تلاوت سے بھی پہلے۔ تو اس میں کچھ خاص ہوتا تھا
روایات میں آپ صلی اللہ وآلہ وسلم کی مسکراہٹ کا بھی ذکر آتا ہے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت مسکرا رہےتھے ۔)سو یہ قرآن اور سنت کے درمیان ایک رشتے کا حصہ ہے کہ یہ سورۃ الکوثر رسول اللہ ﷺ کی مسکراہٹ کے ساتھ منسلک ہے ۔یہ انکی اپنی ذاتی خوشی کے ساتھ منسلک ہے ۔اس بات کو سمجھنا بہت اہم ہے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہت مشکل لمحات سے بھرپور ہے حتی کے پیغمبر بننے سے پہلے بھی۔
مثال کے طور پر اللہ تعالی ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کا ذکر فرماتے ہیں تو لفظ عاایلا استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ عایلا سے نکلا ہے جسے ہم میں سے کئی لوگ جانتے بھی ہیں عایلا فیملی۔ مگر الا یا اولا سے مراد ہے آپ کو کسی کی ضرورت ہے۔ جب آپ کسی پر تکیہ کریں۔ مایوس کن حالات میں جیسے بچہ امید سے بالکل خالی ہو کر ماں کی طرف دوڑتا ہے تو اس مقام پر وہ اسکی عائیلہ ہیں۔ اور گھر کے ایک سربراہ کی حثیت سے آپکے باقی خاندان کے لیے آپ عائیلہ ہیں۔ کیونکہ وہ آپکی طرف رجوع کرتے ہیں ۔انہیں آپکی ضرورت ہے۔ تو یہاں اللہ تعالی ایسے شخص کے بارے میں بیان کرتے ہیں جو ضرورتمند ہے۔ جو شخص ضرورتمند ہے وہ عائل کہلاتا ہے۔اور اس سورت میں رسول اللہ ﷺ کو ایسے شخص کے طور پر بتایا ہے جو عیلا میں ہیں ۔عیلا ؟ یعنی جب آپ (امید سے خالی ،مایوس کن )ضرورت میں ہوں۔
روسرے لفظوں میں ایک بچے کو اپنے باپ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایسے ہی اپنی ماں کی بھی ۔مگر وہ اپنے باپ کو جان بھی نہیں پاتا اور کھو دیتا ہے ۔اور اول عمری میں ہی اپنی ماں کو بھی کھو دیتا ہے ۔اور پھر دادا کو بھی جو اسے اپنے بیٹوں کی طرح چاہتے تھے۔پھر جس وقت انہیں ابو طالب کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ بھی دنیا سے کوچ فرما جاتے ہیں ۔اور پھر قریش کی طرف سے بیر بڑھتا ہی جا رہا ہے تو وہ ضرورت کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع فرما تے ہیں وہ بھی دنیا سے رخصت ہو جاتیں ہیں۔ وہ مسلسل ضرورت کے حالات میں اکیلے چھوڑ دیے جاتے ہیں ۔
تمام انسان جذباتی سہارے کی ضرورت میں ہوتے ہیں۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے لیے بھی صحیح ہے ۔انہیں بھی جذباتی سہارا درکار تھا۔
حدیبیہ کے موقع پر جب صحابہ نے احرام اتارنے سے آنکار کر دیا تب آپ ﷺ کی نافرمانی ہوئی، ان لوگوں کی طرف سے ہوئی جو ایمان نہیں لائے تھے، منافقوں کے ہاتھوں، مگر وہ بھی اسلیے کہ صحابہ چونکہ قدرے مایوسی کی حالت میں تھے۔ وہ سو کی تعداد میں تھے۔ اٹھارہ سو کئی روایات کے مطابق۔وہ وہاں حج کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں ۔انھوں نے اس کے لیے اتنا سفر کیا ہے ۔بلکہ انہیں یہاں تک پہنچنے کے لیے ایسا راستہ اختیار کرنا پڑا جہاں سے انسان نہیں گزرا کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں خطرہ تھا اگر وہ عام راستے سے گزرے تو ان پر حملہ کر دیا جائے گا۔ تو انہیں حدیبہ تک پہنچنے کے لیے بھی اس راستے سے گزرنا پڑا جہاں سے جانور بھی نہیں گزرا کرتے تھے ۔اور اسی وجہ سے ان میں سے کئی کے احرام نیچے سے خون سے لبریز تھے کیونکہ انکے پاؤں زخمی تھے۔یہ راستہ ایک صحابی نے تجویز کیا تھا ۔یہ وہاں تک پہنچنے کے استعمال کیا جانے والا عام راستہ نہیں تھا۔ سو وہ وہاں پہنچتے ہیں فائنلی مذاکرات شروع ہوتے ہیں ۔اور یہ مذاکرات بھی آسان نہیں تھے۔ یہ خطبہ حدیبیہ سے متعلق نہیں ہے مگر میں آپ کو صحابہ کے جذبات کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔
سارے مذاکرات کے بعد رسول اللہﷺ پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ ہم حج نہیں کر رہے ۔اور انہیں پہنچنے والہ صدمہ اتنا شدید ہے کہ اگر وہاں صحابہ کے علاوہ عام لوگوں کو گروہ ہوتا تو وہاں فساد کھڑا ہو جاتا ۔
آپ تصور کر سکتے ہیں آپ نے اپنے حج کے لیے پیسے دیے۔احرام خریدا۔ گھر والوں کو خیر آباد کہا۔ معذرت کی سب سے۔ تین فلائیٹس لے کر جدہ پہنچے ۔اور پاسپورٹ آفس پہ آپکو آدمی کہتا ہے آپ واپس چلے جائیں کیونکہ آپ امریکہ سے ہیں۔
اگر گروپ میں کچھ سو لوگ بھی ہیں تو بھی ائیر پوٹ پر کافی مسئلہ ہو گا۔
وہی لوگ خوبصورت اور انمول ہیں
جو خیر کی خبر دیتے ہیں
پریشانی میں دلاسہ اور بھروسہ دیتے ہیں
صراط المستقیم کی بات کرتے ہیں
ہمیشہ تنہائی میں اصلاح کرتے ہیں
کوئی لالچ نہیں رکهتے
ایسے لوگ قیمت سے نہیں قسمت سے ملتے ہیں
میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے، میرے بچے اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں، عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے۔
میری یہ بات سننی تھی کہ انھوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کے تُو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔ میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی۔ بابا نے کہا:
اشفاق احمد، میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے س خصوصی محبت تھی۔ اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔ میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بنا محنت کیے اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔
ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، حسبِ معمول اماں آئی اور دانوں کی بک بھری کہ مرغے کو رزق دے، اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔
اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔ اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا کبھی بائیں کبھی شمال کبھی جنوب۔ سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اس کا پیٹ بھی نہیں بھرا۔
بابا دین مُحمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے فٹ سے جواب دیا نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا، بابا بولا بالکل ٹھیک۔ یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساسِ برتری کی ٹھونگیں مارو گے تو اللہ تمھارا رزق مشکل کر دے گا اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔
تُو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں، رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔ بابا عجیب سی ترنگ میں بولا:
پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا، ان کی تعریف کرنے والا ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو معاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو۔
اشفاق احمد
جیسے زندگی گزاریں گے ویسے ہی موت آئے گی۔ حیرت کی بات ہے ناں۔۔۔۔۔۔۔؟ نمازیں قضا کر کے ہم سجدے کی حالت میں مرنا چاہتے ہیں۔ گنگناتے گانے ہیں مگر مرتے وقت کلمہ پڑھنا چاہتے ہیں؟
جس حال میں مرنا پسند کرتے ہیں، اس حال میں زندگی گزارنا شروع کر دیں...!!
انسان تین چیزیں کبھی نہیں چھپا سکتا محبت کھانسی
اور پاپڑ کھانے کی آواز?*?*
سکون کی تلاش انسان کو رب کے در تک لے ہی آتی ہے
یقین رکھو اپنے اللہ پہ جس نے تمہیں بنایا وہ تمھیں کبھی تنہا بھی نہیں چھوڑے گا ان شاءاللہ
جب تمہیں یوں لگے کہ تم اب تھک چُکے ہو، اور دُعا بھی نہیں مانگ سکتے تو سر جھکا کر خالی ہاتھ پھیلا دیا کرو، اور تمہارے پھیلے ہوئے ہاتھ اس بات کی گواہی ہوں گے کہ تم رب کائنات کے محتاج ہو، اور میرا رب تو خاموشیوں کو بھی جانتا ہے
وہ ذات اللّٰہ تعالیٰ انسان کی ہی ہے ھے جو اپنے بندے پر کرم کرتاہے اور مایوسی سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے
حیض کے ایام میں قرآنی آیات کو بطور دعا یا بطور وظیفہ پڑھنے کا حکم
سوال
کیا ایامِ حیض میں قرآنی آیات کا ورد بطورِ وظیفہ یا بطورِ دعاکر سکتے ہیں؟
جواب
عورت کے لیے حیض کے ایام میں اُن قرآنی آیات کو (ہاتھ لگائے بغیر) بطورِ دعا یا بطور وظیفہ پڑھنا جائز ہے جن میں دعا کا معنیٰ ہو، مثلاً آیتِ کریمہ، آیۃ الکرسی، سورہ فاتحہ وغیرہ۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200263
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ
?????????????
میری پوسٹ کو کون ڈیلیٹ کر رہا ہے?️?️?️?️
متجر بيع حسابات بيس موبايل
متجر شحن بيس موبايل
يتوفر جميع انواع حسابات بيس موبايل
المالك || @n_2_v
Last updated 2 weeks, 3 days ago
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
اسلامی حدیث، پشتو
کانال ته شه راغـلاســت
♥️لینک ثواب لپارہ نشر کئ
زما ګرانه ملګروه
?جزاك اللہ خیرا?
https://t.me/vghf232d
Last updated 2 months ago
برای تبلیغات با ای دی زیر در ارتباط باشید👇
@Pooree123
Last updated 1 week, 2 days ago