Official Telegram Channel by Sarkari Result SarkariResult.Com
Welcome to this official Channel of Sarkari Result SarkariResult.Com - On this page you will get all the updated information on Sarkari Result website from time to time.
Last updated 5 days, 19 hours ago
?Only Current Affairs English & Hindi Medium.
Contact @GKGSAdminBot
Channel Link- https://t.me/+wytqxfcVInNjN2E1
By Chandan Kr Sah
Email- [email protected]
Must Subscribe Us On YouTube - https://youtube.com/channel/UCuxj11YwYKYRJSgtfYJbKiw
Last updated 1 year, 7 months ago
? YouTube channel link :-
https://youtube.com/c/RojgarwithAnkit
? telegram channel - @rojgaarwithankit
? telegram channel - @RojgarwithankitRailway
? RWA helpline number - 9818489147
Last updated 1 year, 7 months ago
طالبِ علم بہت سارے گناہوں سے صرف اس لیے دُور رہتا ہے کہ میرا نُور مجھ سے چِھن نہ جائے۔ بسا اوقات ایک حرام نظر طویل عرصہ تک دل کو تاریک کر دیتی ہے۔ دل تعلق باللہ کی حلاوت سے شناسا ہونے کے باوجود کوئی تحریک نہیں پاتا، فالج زدہ ہو جاتا ہے، اسے گرہن لگ جاتا ہے۔
بعض دفعہ ہنسی مذاق اور قہقہوں کی مجلس طویل ہو جائے تو بیٹھے بیٹھے دل ٹَھک سے بند ہو جاتا ہے۔ جیسے ہوا کے تیز جھونکے سے چراغ بجھتا ہے۔ پوری نیت کے ساتھ ذکر و تلاوت کے ذریعے اس کو پھر سے روشن نہ کیا جائے تو وہ بند ہی رہ جاتا ہے۔
بحث و جدال بھی علم کا نُور لے جاتے ہیں۔ انسان کسی بے نتیجہ بحث میں مبتلا کر دیا جائے تو دل باقاعدہ سخت ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر کیلیے نماز کا خشوع اور مناجات کی لذت رُوٹھ جاتے ہیں۔ بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ کبھی والدین کے سامنے آواز اونچی ہو جائے تو یکا یک دل مَر سا جاتا ہے! وحشت طاری ہو جاتی ہے۔ گویا ایک دم علم کے سب پلندے وجود سے الگ ہو کر گُھور رہے ہوں کہ یہ کیا کر دیا؟!
دل کی دنیا اندھیری کرنے کیلیے دنیا کی چَکا چوند سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ بعض دفعہ تو اہلِ دنیا کے ٹھاٹھ کی طرف نظر اٹھانے سے ہی بصیرت چُندھیا جاتی ہے۔ تو پھر اس طالب علم کا کیا حال ہو گا جس کا اٹھنا بیٹھنا ہی اُن لوگوں میں ہوتا ہے جن کے دل دنیا کی محبت سے لبریز ہوتے ہیں، اور جن کی باتوں کا محور دنیا ہوتی ہے؟!
کبھی علم والوں سے پوچھ کر دیکھیے کہ باجماعت نماز کے چُھوٹ جانے سے کیا گزرتی ہے؟! دنیا بیگانی سی نہیں ہو جاتی؟! کھانا بدمزہ ہو جاتا ہے۔ قدم بوجھل ہو جاتے ہیں۔ دوستوں کی مجلس بوجھ بن جاتی ہے۔ جب تک کہ انسان اپنے رب کے سامنے گڑگڑا نہ لے کہ مولا! میرا نُور مجھے لوٹا دے!! اور یہ توفیق بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ جب امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے شاگرد بن کر بیٹھے تو استاد نے فرمایا : ”مجھے لگتا ہے کہ اللہ نے تمہارے سینے میں علم کا نُور روشن کر دیا ہے، دیکھو! گناہوں کی تاریکی سے اِسے بجھنے نہ دینا!“ اور ہم میں سے بہت ساروں کے نُور بجھ چُکے ہیں، مگر ہمیں احساس نہیں ہے۔ ہم علم کی دکان کے باہر نصب بے جان مجسمے ہیں۔ اور نہیں تو کیا!
سہل التستری رحمہ اللہ ایک نورانی جملہ کہہ گئے ہیں : "حرامٌ على قلبٍ أن يدخله النُّور، وفيه شيءٍ مما يكره الله عز وجل!" حرام ہے کہ اس دل میں نور داخل ہو جائے، جس میں تاریکیاں ہوں! جس میں دنیا کی محبت ہو! جو نامحرم سے تعلق استوار کرتا ہو! جسے خلقِ خدا پر ظلم کی نحوست نے کالا کر دیا ہو! جس کا "میں" کا ڈنک نکلا نہ ہو! ...
طالب علم کو چاہیے کہ ہر وقت فکرمند رہے کہ کہیں میرا نُور مجھ سے چِھن نہ جائے۔ اس فکر کو روگ بنا لے۔ لامحالہ اسے بہت سے مشاغل ترک کرنے پڑیں گے، کئی صحبتوں کو خیر آباد کہنا پڑے گا، کئی رویوں پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی۔ پھر شاید وہ سلفِ اوائل کی اس بات کا کچھ مصداق بن جائے کہ : ”ہم میں سے جب کوئی علم حاصل کرتا تھا تو وہ علم اس کی چال ڈھال میں نظر آ جاتا تھا۔“
يا نورَ السماوات والأرض، أتمِمْ لنا نورَنا واغفر لنا!
May My Light Not Be Taken Away from Me
The people of Ma'rifah (those deeply acquainted with Allah) have defined the knowledge of Shari'ah as a light from Allah that illuminates the heart of a person. This light is often felt tangibly within the heart, much like the flame of a lamp. A true seeker of knowledge spends his life in concern, fearing that this light might be extinguished. This is the meaning of what Maalik bin Dinar رحمه الله said: "The knowledge gained for the purpose of action breaks a person down."
A student of knowledge stays away from many sins out of fear that their light might be taken away from them. Sometimes, even one unlawful glance can darken the heart for a long time. Even though the heart has tasted the sweetness of its connection with Allah, it becomes unresponsive, paralyzed, and eclipsed.
There are times when sitting in gatherings filled with laughter and jokes can turn the heart off. Just like a candle extinguished by a gust of wind, the heart shuts down. If not reignited with sincerity through dhikr (remembrance of Allah) and recitation, it remains closed.
Debates and arguments can also strip away the light of knowledge. When a person becomes entangled in fruitless debates, the heart hardens. For a time, the humility in prayer and the sweetness of intimate conversation with Allah abandoned the person. I have even observed that when someone raises their voice in front of their parents, the heart seems to die instantly! A sense of dread sets in. It’s as though all the knowledge amassed separates from the person, glaring at them, saying, "What have you done?!"
Nothing darkens the heart more than being enamored with the glitter of this world. Sometimes, even a glance at the pomp of worldly people can cause one's inner vision to blur. Imagine the state of the student of knowledge whose company consists of those whose hearts are brimming with love for the world, and whose conversations revolve solely around it!
Ask scholars what it feels like when they miss a congregational prayer! Doesn’t the world seem alien to them? The food becomes tasteless. The steps feel heavy. Even the company of friends feels burdensome. Until a person humbles themselves before their Lord and begs, "O Allah, return my light to me!" And even this supplication is a gift from Allah.
When Imam Shafi'i رحمه الله sat as a student before Imam Malik رحمه الله, the teacher remarked, "I feel that Allah has illuminated your heart with the light of knowledge, so be mindful not to extinguish it with the darkness of sin!" Many of us have already lost our light, yet we remain oblivious. We are nothing more than lifeless statues standing outside the shop of knowledge. Isn’t that true?
Sahl al-Tustari رحمه الله uttered a radiant statement: "It is forbidden for light to enter a heart in which there is something displeasing to Allah, the Almighty!" It is forbidden for light to enter a heart filled with darkness, with love for the world, with forbidden relationships, blackened by the curse of oppression upon others, or still plagued by the ego!
A student of knowledge should always remain concerned, fearing that their light might be taken away from them. Let this worry become their obsession. Inevitably, they will need to abandon many distractions, part ways with certain companions, and reconsider many behaviors. Only then might they reflect the statement of the early generations: "When one of us would gain knowledge, it would become visible in their conduct."
O Light of the heavens and the earth, complete our light for us and forgive us!
میرا نُور مجھ سے چِھن نہ جائے!
اہلِ معرفت نے علمِ شرعی کی تعریف کی ہے کہ یہ اللہ کا نور ہے جو بندے کے سینے میں روشن ہو جاتا ہے۔ یہ نُور دل میں قندیل کی لَو کی مانند باقاعدہ محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ طالبِ علم تو اس فکر میں زندگی گُھلا دیتا ہے کہ یہ نُور بجھ نہ جائے! مالک بن دینار رحمہ اللہ کے فرمان "عمل کیلیے حاصل کیا گیا علم بندے کو توڑ کر رکھ دیتا ہے!" کا یہی معنی ہے۔
مراد ہے یا تلاوت؟
قرآن مجید کوئی انگریزی قانون کی طرح کتاب نہیں ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔ یہ روشن خیال سمجھتے ہیں کہ جیسے انگریزی قانون یا اور قانونی کتاب کے محض الفاظ پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں شاید اسی طرح کلام الہی کے الفاظ پڑھنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں لیکن یہ محض شیطانی وسوسہ اور قرآن پاک سے دور رکھنے کی ایک سازش ہے، قرآن مجید کی خیر و برکت کا اندازہ کیجئے کہ اس کا ایک حرف پڑھنے پر ایک نیکی نہیں دس نیکیاں ملتی ہیں۔ قرآن مجید میں اچھی، پاکیزہ اور ضرورت کی چیزوں کے نام لیے گئے ہیں ، انبیا ء وصالحین اور شہداء و صد یقین کے نام لیے گئے ہیں، اس کے علاوہ عام معلمی اور نجس یا حرام اشیا کے نام بھی ذکر ہوئے ہیں، نیز نا پاک اور خبیث افراد کے ناموں کا تذکرہ بھی ہوا ہے، مگر کلام الہی کی برکت سے ہر ہر لفظ کے ہر ہر حرف کے بدلے یکساں طور پر دس دس نیکیاں ملیں گی ۔ اس برکت کے سبب ہمارے اسلاف زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کرتے تھے۔ یہی سبیل المؤمنین ہے، اور اس سے انحراف بہت سی سعادتوں سے محرومی کا باعث ہے۔
اوقات میں برکت کا راز
بلکہ اوقات میں برکت اور اللہ تعالٰی کی اعانت کا ایک سبب قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ ہمارے اسلاف مختصر وقت میں جو کام کر گزرتے تھے آج اس کا تصور بھی نہیں ، اور یہ سبب ہے قرآن مجید اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ان کے تعلق اور اخلاص کا۔ امام عبد الغنی بن عبدالواحد مقدسی رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی شیخ ابراہیم بن عبد الواحد مقدسی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں عباس بن عبد الدائم المصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ان سے الوداع ہوا تو انھوں نے وصیت فرمائی:
[أكثر من قراءة القرآن، ولا نتركه فإنه يتيسر لك الذى تطلبه على قدر ما تقرأ، قال: فرأيت ذلك وجربته كثيرا، فكنت إذا قرأت كثيرا تيسر لى من سماع الحديث وكتابته الكثير، وإذا لم أقرأ لم يتيسر لى] [ طبقات الحنابلۃ:ج2،ص 98]
’’ قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کیا کرو، اور اس کی تلاوت کوکبھی بھی ترک نہ کرو، تم جس قدر قرآن کی تلاوت کرو گے اس قدر حصول علم میں تمھارے لیے آسانی ہوگی ، عباس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، میں نے اس کا اکثر تجربہ کیامیں قرآن زیادہ پڑھتا تو سماع حدیث اور اس کا لکھنا بھی زیادہ ہوتا ، اور جب نہ پڑھتا تو مجھے سماع حدیث اور اس کا لکھنا میسر نہ ہوتا۔‘‘
اس لیے جو خوش نصیب جس قدر قرآن پڑھتا ہے، اسی قدر اللہ تعالی کے فیضان سے مستفید ہوتا ہے۔ مؤرخین رحمۃ اللہ علیہم نے ذکر کیا ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
[رأيت رب العزة في المنام، فقلت: يا رب، ما أفضل ما تقرب به إليك المتقربون؟قال: بكلامي يا أحمد.قلت: يا رب، بفهم، أو بغير فهم؟قال: بفهم، وبغير فهم][سیر اعلام النبلاء:ج11،ص347]
’’میں نے خواب میں رب العزت ذوالجلال والاکرام کو دیکھا تو عرض کیا اے میرے رب ! تیرا تقرب ڈھونڈنے والوں نے سب سے افضل طریقہ کون سا اختیار کیا ہے؟تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :میرے کلام کے ساتھ اے احمد!میں نے عرض کیا ،اے میرے رب! تیرا کلام سمجھ سوچ کر پڑھنے سے یا بلافہم پڑھنے سے؟تو اللہ رب العزت نے فرمایا:سمجھ کر پڑھا جائے یا بلا فہم پڑھا جائے ۔“
خواب بلا شبہ حجت شرعیہ نہیں لیکن یہ خواب ایسا نہیں جس سے کسی قطعی نص کی مخالفت ہوتی ہو۔ اس لیے جس قدر ہو سکے قرآن مجید کی تلاوت ہونی چاہیے، اور یہ تلاوت ترتیل ،تحسین اور تصحیح حروف کے ساتھ ہونی چاہیے۔ تلاوت اور قراءت قرآن بھی اسی طرح شرعی تقاضا ہے، جس طرح قرآن مجید کا فہم اور اس پر عمل شرعی تقاضا ہے۔ اس میں سے کسی ایک کی تحسین اورایک کاانکار درست نہیں ۔ تلاوت کا فہم ہو تو سونے پر سہا گہ کا مصداق ہے۔
[مقالات مولانا ارشاد الحق الاثری:ج2، ص293،309]
⤵️⤵️❌❌
If not by Celebrating Mawlid, then how to Express our love for Prophet Muhammad صلى الله عليه وسلم
1. Believing in Whatever He Informed About.
To believe in the khabar (report, information) of the Prophet صلى الله عليه وسلم in everything that he informed about of the unseen and seen, the past, present and future, the world, the barzakh and the hereafter. This is because he is the truthful, and whatever he informed his ummah from His Lord is true and real.
2. To Follow Him (Ittibā) and Obey His Command and Restrict Oneself To His Sunnah.
This is from the greatest of signs of loving the Prophet صلى الله عليه وسلم and is from the easiest of what distinguishes genuine, sincere love from what is besides it. The texts in the Qur'ān and the Sunnah in this regard are plentiful and abundant, and the Prophet severely warned against opposing his Sunnah and from innovations in the religion and we shall mention some of that in this treatise.
3. Judging to His Sunnah and Sharīah in Disputes.
This is also from the greatest signs of genuine, pure love, that a believer refers all disputes back to the Sharīah and authentic Sunnah of Allāh's Messenger صلى الله عليه وسلم. Many people will judge to the opinions of their school of thought or to fabricated and weak narrations or to isolated (shādh) opinions and they will rely heavily on the statements of the latecomers from the 7th century and beyond and abandon the earlier generations closer to the era of Prophethood and closer to right guidance and at the head of them are the Companions. Judging to the Sharīah of Islām and to the Prophetic Sunnah is to make interpretations of the texts only through what the Companions knew and understood. Departing from their understanding and implementation is a clear and open sign of deviation because in the Qur'ān, Allāh made following their way from guidance itself.
4. Respecting (Tawqĩr) and Venerating (Ta'zīr) the Prophet صلى الله عليه وسلم
From the signs of respecting the Prophet is not to raise one's voice over his and not to put oneself ahead of the Prophet, meaning his command, his Sunnah and his Sharīah and also to be abundant and frequent in sending şalāt upon him. The Prophet صلى الله عليه وسلم said, "The miser is the one who when I am mentioned does not send şalãt upon me."
5. Defending his Sunnah
The Companions were the best and truest examples of defending the Sunnah and of sacricifing with theirselves, wealth and children, in times of ease and hardship and their biographies are the greatest illustrations of this. When that which the Prophet had صلى الله عليه وسلم informed of splitting and the appearance of the sects, it was the Companions who preserved the Sunnah and conveyed it to the Successor (Tābiīn). The Companions rejected innovations in belief and worship and they transmitted what they knew of the Sunnah. The preservation of the religion was at their hands due to their transmission of the Sunnah and rejection of what opposed it from the innovations. A person's love of the Prophet remains only a claim and cannot be genuine without following their way.
This is how the Companions loved and respected the Prophet صلى الله عليه وسلم and there was no calamity greater upon them than the passing away of the Prophet.
Despite that, they preserved and protected the religion by conveying it with care and precision to those who came after them. However, there appeared enemies of Islām, such as 'Abdullāh bin Saba' al-Yahūdi whose subversive activities led to splitting and innovations and from the manifestation of those activities were the appearance of the Khawārij and the Rawāfid (commonly, the Shiah). The Shỉite movements became a magnet and refuge for every external enemy of Islām who desired evil for it and its people.
[Source : Regarding Celebration of the Prophet's Mawlid by Abū Iyaad Amjad Rafiq]
The Salaf As-Salih Did Not Celebrate The Mawlid Of The Prophet
Shaykh ul-Islaam Ibn Taymeeyah [رحمه الله] said regarding the Mawlid of the Prophet [ﷺ]:
❝The Salaf As-Salih did not do this even though they could have done it and there was no prevention in doing so. If the Mawlid was good or seen as beneficial the Salaf [رضي الله عنهم] would have had more of a right to it than us because they were the greatest in love for the Messenger of Allaah [ﷺ] and in respect for him, compared to us, and were more concerned for goodness.
Indeed loving him completely and respecting him is by following him [ﷺ], obeying him and following his commands, reviving his Sunnah outwardly and inwardly and conveying what he was sent with, striving upon that with the heart, hand and tongue, as this was the way of the foremost to embrace Islaam from the Muhajireen, the Ansar and those who followed them in goodness.❞
[Iqtida’ As-Siraat Al-Mustaqeem, (2/619) | Translated By Abbas Abu Yahya Miraath Al-Anbiyya]
Imam Ibn Qudamah رحمه الله was asked:
"What is good fortune?"
He replied:
"The person whose breath stops, but their good deeds do not."
[Al-Bayhaqi, 3449]
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
خوش قسمتی کیا ہے؟
"تو فرمایا: وہ شخص جس کی سانس رک جائے لیکن اس کی نیکیاں نہ رکیں"
البیھقی 3449
"Consideration of 'Kufu' (Suitability) in a Girl's Marriage
It is incumbent upon the guardian in a girl’s marriage to find a ‘kufu’—meaning a suitable and equal match for her. Generally, equality includes factors such as lineage, religion, freedom, financial ability, and being free from apparent defects. Similarly, according to the majority of scholars, equality in religiousness and piety is also necessary. Therefore, if the girl is religious, committed to prayer and fasting, modest, and virtuous, then it is necessary that the boy in her marriage should also be equally religious. If a guardian marries her off to someone who is sinful, negligent in prayer and fasting, then she has the right to annul the marriage.
The following Quranic verse serves as evidence for this:
'Is the one who is a believer equal to the one who is a sinner? They are not equal.' (As-Sajda: 18).
Similarly, scholars have derived this understanding from the hadith of the Prophet Muhammad (peace be upon him):
'When someone whose religion and character you are pleased with proposes to you, then marry him. If you do not do so, there will be fitnah (trouble) and widespread corruption on earth.' (Sunan At-Tirmidhi: 1084, Sunan Ibn Majah: 1967).
On the basis of these evidences, it is also wrong to give a girl in marriage to someone of innovation (ahl al-bid’ah). Many scholars have explicitly stated this.
(For details, see: Al-Kafa’ah Fi Al-Nikah by Dr. Omar Suleiman Al-Ashqar: 77-82).
Some people marry off their daughters based on wealth and worldly status without considering religiosity and piety, arguing that she will reform her spouse after marriage. This is a great injustice. A woman is naturally weak and impressionable, and it is neither legally nor logically correct to deliberately push her into difficulties. Moreover, this often leads to many social problems. For this reason, while it is permissible for a man to marry a non-religious woman, even one from the People of the Book, the opposite is not allowed for a woman."
(Hafiz Muhammad Tahir)
’’لڑکی کے نکاح میں "کفو" کا اعتبار‘‘
لڑکی کے نکاح میں ولی پر لازم ہے کہ وہ اس کے لیے ’’کفو‘‘ یعنی ہم پلہ، ہمسر و برابری کا رشتہ تلاش کرے، برابری میں اجمالی طور پر معتبر چیزیں نسب، دین، آزادی، مالی استطاعت، ظاہری عیوب سے سلامتی وغیرہ شامل ہیں۔
اسی طرح جمہور اہل علم کے ہاں دینداری و صالحیت میں بھی برابری ضروری ہے، لہذا لڑکی دیندار، نماز، روزہ کی پابند ہو، باپردہ و نیک طینت ہو تو اس کے رشتے میں لڑکا بھی اسی درجے کا دیندار ہونا ضروری ہے، اگر کوئی ولی فاسق و فاجر، نماز و روزہ میں سستی کرنے والے سے نکاح کر دیں تو اس کے پاس نکاح فسخ کروانے کا حق ہے ۔
اس پر درج ذیل قرآنی آیت دلیل ہے :
﴿أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُونَ﴾.
’’کیا جو شخص مومن ہے وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے؟ یہ ہرگز بھی برابر نہیں۔‘‘ (السجدہ : 18)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث سے بھی علماء نے یہی استدلال کیا ہے :
’’جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے توزمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا۔‘‘ (سنن الترمذی : 1084، سنن ابن ماجہ : 1967)
انہی دلائل کی بنیاد پر اہل بدعت کو رشتہ دینا بھی غلط ہے، اس پر کئی علماء نے صراحت کی ہے ۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے : الکفاءۃ فی النکاح لدكتور عمر سليمان الأشقر : ٧٧ - ٨٢)
بعض لوگ بیٹیوں کے نکاح مال و دولت اور دنیاوی اسٹیٹس کی بنیاد پر دینداری و پرہیزگاری دیکھے بغیر کر دیتے ہیں اور دلیل یہ دیتے تھے کہ یہ خود ہی سسرال جا کر اصلاح کر لے گی، یہ نہایت ظلم ہے، عورت فطری طور پر کمزور اور متاثر ہونے والی ہوتی ہے اسے جان بوجھ کر مشکلات میں دھکیل دینا شرعا و عقلا ہر دو لحاظ سے درست نہیں، پھر اس کی بنیاد پر بہت سے معاشرتی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے مرد کے لیے تو غیر دین دار حتی کہ کتابی عورت سے نکاح تو جائز قرار دیا ہے جبکہ اس کے برعکس عورت کے لیے اس کی اجازت نہیں۔
(حافظ محمد طاھر)
Official Telegram Channel by Sarkari Result SarkariResult.Com
Welcome to this official Channel of Sarkari Result SarkariResult.Com - On this page you will get all the updated information on Sarkari Result website from time to time.
Last updated 5 days, 19 hours ago
?Only Current Affairs English & Hindi Medium.
Contact @GKGSAdminBot
Channel Link- https://t.me/+wytqxfcVInNjN2E1
By Chandan Kr Sah
Email- [email protected]
Must Subscribe Us On YouTube - https://youtube.com/channel/UCuxj11YwYKYRJSgtfYJbKiw
Last updated 1 year, 7 months ago
? YouTube channel link :-
https://youtube.com/c/RojgarwithAnkit
? telegram channel - @rojgaarwithankit
? telegram channel - @RojgarwithankitRailway
? RWA helpline number - 9818489147
Last updated 1 year, 7 months ago