الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ 🩵
▪️Telegram : @uulzl - @a3a3a
Last updated 1 month ago
مائی صاحبہ کو غمگین دیکھا تو فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تمہارے دل میں ان کا بغض پیدا ہو جاتا مائی صاحبہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بچہ جو آپ سے ہوا وہ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ جنت میں ہے مومن مع اپنی اولاد کے جنت میں ہیں ۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی یہ تو ہوئی ماں باپ کے اعمال صالحہ کی وجہ سے اولاد کی بزرگی اب اولاد کی دعا خیر کی وجہ سے ماں باپ کی بزرگی ملاحظہ ہو
وہ مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں دفعۃً بڑھاتا ہے وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ میرا یہ درجہ کیسے بڑھ گیا ؟ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لئے استغفار کیا اس بنا پر میں نے تیرا درجہ بڑھا دیا اس حدیث کی اسناد بالکل صحیح ہیں گو بخاری مسلم میں ان لفظوں سے نہیں آئی ۔
لیکن اس جیسی ایک روایت صحیح مسلم میں اسی طرح مروی ہے کہ ابن آدم کے مرتے ہی اس کے اعمال موقوف ہو جاتے ہیں لیکن تین عمل کہ وہ مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچاتے رہتے ہیں ۔ صدقہ جاریہ علم دین جس سے نفع پہنچتا ہے نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعائے خیر کرتی رہے چونکہ یہاں بیان ہوا تھا کہ مومنوں کی اولاد کے درجے بےعمل بڑھا دئیے گئے تھے تو ساتھ ہی ساتھ اپنے اس فضل کے بعد اپنے عدل کا بیان فرماتا ہے کہ کسی کو کسی کے اعمال میں پکڑا نہ جائے گا بلکہ ہر شخص اپنے اپنے عمل میں رہن ہو گا باپ کا بوجھ بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر نہ ہو گا جیسے اور جگہ ہےآیت (کل نفس بما کسبت رھینۃ ) الخ
ہر شخص اپنے کئے ہوئے کاموں میں گرفتار ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پہنچے وہ جنتوں میں بیٹھے ہوئے گنہگاروں سے دریافت کرتے ہیں ۔
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان جنتیوں کو قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے گوشت دئیے جاتے ہیں جس چیز کو جی چاہے جس پر دل آئے وہ یک لخت موجود ہو جاتی ہے شراب طہور کے چھلکتے ہوئے جام ایک دوسرے کو پلا رہے ہیں جس کے پینے سے سرور اور کیف لطف اور بہار حاصل ہوتا ہے لیکن بد زبانی بےہودہ گوئی نہیں ہوتی ہذیان نہیں بکتے بےہوش نہیں ہوتے سچا سرور اور پوری خوشی حاصل بک جھک سے دور گناہ سے غافل باطل وکذب سے دور غیبت وگناہ سے نفور دنیا میں شرابیوں کی حالت دیکھی ہو گی کہ ان کے سر میں چکر پیٹ میں درد عقل زائل بکواس بہت بو بری چہرے بےرونق اسی طرح شراب کے بد ذائقہ اور بدبو یہاں جنت کی شراب ان تمام گندگیوں سے کوسوں دور ہے یہ رنگ میں سفید پینے میں خوش ذائقہ نہ اس کے پینے سے حواس معطل ہوں نہ بک جھک ہو نہ بہکیں نہ بھٹکیں نہ مستی ہو نہ اور کسی طرح ضرر پہنچائے۔
ہنسی خوشی اس پاک شراب کے جام پلا رہے ہوں گے ان کے غلام کمسن نوعمر بچے جو حسن و خوبی میں ایسے ہیں جیسے مروارید ہوں اور وہ بھی ڈبے میں بند رکھے گئے ہوں کسی کا ہاتھ بھی نہ لگا ہو اور ابھی ابھی تازے تازے نکالے ہوں ان کی آبداری صفائی چمک دمک روپ رنگ کا کیا پوچھنا ؟
لیکن ان غلمان کے حسین چہرے انہیں بھی ماند کر دیتے ہیں اور جگہ یہ مضمون ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے آیت (یطوف علیھم ولدان مخلدون) یعنی ہمیشہ نو عمر اور کمسن رہنے والے بچے آبخورے آفتابے اور ایسی شراب صاف کے جام کہ جن کے پینے سے نہ سر میں درد ہو نہ بہکیں اور جس قسم کا میوہ یہ پسند کریں اور جس پرند کا گوشت یہ چاہیں ان کے پاس بار بار لانے کے لئے چاروں طرف کمربستہ چل رہے ہیں اس دور شراب کے وقت آپس میں گھل مل کر طرح طرح کی باتیں کریں گے ۔
دنیا کے احوال یاد آئیں گے کہیں گے کہ ہم دنیا میں جب اپنے والوں میں تھے تو اپنے رب کے آج کے دن کے عذاب سے سخت لرزاں و ترساں تھے الحمد اللہ رب نے ہم پر خاص احسان کیا اور ہمارے خوف کی چیز سے ہمیں امن دیا ہم اسی سے دعائیں اور التجائیں کرتے رہے اس نے ہماری دعائیں قبول فرمائیں اور ہمارا قول پورا کر دیا یقینا وہ بہت ہی نیک سلوک اور رحم والا ہے۔
مسند بزار میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی اپنے دوستوں سے ملنا چاہے گا تو ادھر دوست کے دل میں بھی یہی خواہش پیدا ہو گی اس کا تخت اڑے گا اور راستہ میں دونوں مل جائیں گے اپنے اپنے تختوں پر آرام سے بیٹھے ہوئے باتیں کرنے لگیں گے دنیا کے ذکر کو چھیڑیں گے اور کہیں گے کہ فلاں دن فلاں جگہ ہم نے اپنی بخشش کی دعا مانگی تھی اللہ نے اسے قبول فرمایا ۔ اس حدیث کی سند کمزور ہے حضرت مائی عائشہ نے جب اس آیت کی تلاوت کی تو یہ دعا پڑھی (اللھم من علینا وقنا عذاب السموم انک انت البر الرحیم )
حضرت اعمش راوی حدیث سے پوچھا گیا کہ اس آیت کو پڑھ کر یہ دعا ام المومنین نے نماز میں مانگی تھی ؟ جواب دیا ہاں ۔
طالب دعا: بلال نصیر اینڈ ٹیم
🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸
Join
👇🏻
👇🏻
📚Taleem-Ul-Quran Urdu📚
https://telegram.me/quranlessonsj
🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸
🌾تفسیر ابن کثیر 🌾
🌷 سُورَۃ الطور۔ 🌷
صالح اولاد انمول اثاثہ
اللہ تعالٰی جل شانہ اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم اپنے احسان اور انعام کا بیان فرماتا ہے کہ جن مومنوں کی اولاد بھی ایمان میں اپنے باپ دادا کی راہ میں لگ جائے لیکن اعمال صالحہ میں اپنے بڑوں سے کم ہو پروردگار ان کے نیک اعمال کا بدلہ بڑھا چڑھا کر انہیں ان کے بڑوں کے درجے میں پہنچا دے گا تاکہ بڑوں کی آنکھیں چھوٹوں کو اپنے پاس دیکھ کر ٹھنڈی رہیں اور چھوٹے بھی اپنے بڑوں کے پاس ہشاش بشاش رہیں۔
ان میں ان کے عملوں کی بڑھوتری ان کے بزرگوں کے اعمال کی کمی سے نہ کی جائے گی بلکہ محسن و مہربان اللہ انہیں اپنے معمور خزانوں میں سے عطا فرمائے گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر یہی فرماتے ہیں ۔
ایک مرفوع حدیث بھی اس مضمون کی مروی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ جب جنتی شخص جنت میں جائے گا اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو نہ پائے گا تو دریافت کرے گا کہ وہ کہاں ہیں جواب ملے گا کہ وہ تمہارے مرتبہ تک نہیں پہنچے یہ کہے گا باری تعالٰی میں نے تو اپنے لئے اور انکے لئے نیک اعمال کئے تھے چنانچہ حکم دیا جائے گا اور انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دیا جائے گا ۔
یہ بھی مروی ہے کہ جنتیوں کے بچوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے وہ تو ان کے ساتھ ملا دئیے جائیں گے لیکن ان کے جو چھوٹے بچے چھٹ پن ہی میں انتقال کر گئے تھے وہ بھی ان کے پاس پہنچا دئیے جائیں گے ۔
حضرت ابن عباس ، شعبی ، سعید بن جبیر ابراہیم قتادہ ابو صالح ربیع بن انس ضحاک بن زید بھی یہی کہتے ہیں امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں
مسند احمد میں ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دو بچوں کی نسبت دریافت کیا جو زمانہ جاہلیت میں مرے تھے تو آپ صلی علیہ نے فرمایا وہ دونوں جہنم میں ہیں ،
🌷بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم🌷
✨باذن اللہ تعالی✨
🌷السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتہ
ل
02 اگست جولائی 2024 جمعہ
26 محرم 1446 ہجری
📓تعلیم القران
📖 سبق نمبر 1121
52۔ سورہ ٱلطور
🌟مقام نزول مکہ مکرمہ
آیت : 18 : 21
🌴بارک اللہ فیکم🌴
جنت کا منظر
اللہ تعالٰی نیک بختوں کا انجام بیان فرما رہا ہے کہ عذاب و سزا جو ان بد بختوں کو ہو رہا ہے یہ اس سے محفوظ کر کے جنتوں میں پہنچا دئیے گئے جہاں کی بہترین نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہر طرح خوش حال خوش دل ہیں قسم قسم کے کھانے طرح طرح کے پینے بہترین لباس ، عمدہ عمدہ سواریاں ، بلند و بالا مکانات اور ہر طرح کی نعمتیں انہیں مہیا ہیں کسی قسم کا ڈر خوف نہیں۔
اللہ فرما چکا ہے کہ تمہیں میرے عذابوں سے نجات مل گئی غرض دکھ سے دور ، سکھ سے مسرور، راحت و لذت میں مخمور ہیں جو چیز سامنے آتی ہے وہ ایسی ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو نہ کسی کان نے سنا ہو نہ کسی دل پر خیال تک گذرا ہو۔
پھر اللہ کی طرف سے بار بار مہمان نوازی کے طور پر ان سے کہا جاتا ہے کہ کھاتے پیتے رہو خوش گوار خوش ذائقہ بےتکلف مزید مرغوب چیزیں تمہارے لئے مہیا ہیں پھر ان کا دل خوش کرنے حوصلہ بڑھانے اور طبیعت میں امنگ پیدا کرنے کے لئے ساتھ ہی اعلان ہوتا ہے کہ یہ تو تمہارے اعمال کا بدلہ ہے جو تم اس جہان میں کر آئے ہو۔
مرصع اور جڑاؤ شاہانہ تخت پر بڑی بےفکری اور فارغ البالی سے تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے ستر ستر سال گذر جائیں گے انہیں ضرورت نہ ہو گی کہ اٹھیں یا ہلیں جلیں بیشمار سلیقہ شعار ادب دان خدام ہر طرح کی خدمت کے لئے کمربستہ جس چیز کو جی چاہے آن کی آن میں موجود آنکھوں کا نور دل کا سرور وافر و موفور سامنے بے انتہاء خوبصورت خوب سیرت گورے گورے پنڈے والی بڑی بڑی رسیلی آنکھوں والی بہت سی حوریں پاک دل عفت مآب عصمت خوش دل بہلانے اور خواہش پوری کرنے کے لئے سامنے کھڑی ہر ایک نعمت و رحمت چاروں طرف بکھری ہوئی پھر بھلا انہیں کس چیز کی کمی ۔
ستر سال کے بعد جب دوسری طرف مائل ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہاں اور ہی منظر ہے ہر چیز نئی ہے ہر نعمت جوبن پر ہے اس طرف کی حوروں پر نظریں ڈالتے ہیں تو ان کے نور کی چکا چوند حیرت میں ڈال دیتی ہے ان کی پیاری پیاری بھولی بھالی شکلیں اچھوتے پنڈے اور کنوار پنے کی شرمیلی نظریں اور جوانی کا بانکپن دل پر مقناطیسی اثر ڈالتا ہے جنتی کچھ کہے اس سے پہلے ہی وہ اپنی شیریں کلامی سے عجیب انداز سے کہتی ہیں شکر ہے کہ آپکا التفات ہماری طرف بھی ہوا ۔
غرض اسی طرح من مانی نعمتوں سے مست ہو رہے ہیں ۔ پھر ان جنتیوں کے تخت باوجود قطار وار ہونے کے اس طرح نہ ہوں گے کہ کسی کو کسی کی پیٹھ ہو بلکہ آمنے سامنے ہوں گے۔
جیسے اور جگہ ہے آیت (وعلی سرر متقابلین ) تختوں پر ہوں گے اور ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے۔
پھر فرماتا ہے ہم نے انکے نکاح میں حوریں دے رکھی ہیں جو کبھی دل میلا نہ کریں جب آنکھ پڑے جی خوش ہو جائے اور ظاہری خوبصورتی کی تو کسی سے تعریف ہی کیا ہو سکتی ہے ؟ انکے اوصاف کے بیان کی حدیثیں وغیرہ کئی مقامات پر گذر چکی ہیں اسلئے انہیں یہاں وارد کرنا کچھ چنداں ضروری نہیں ۔
طالب دعا: بلال نصیر اینڈ ٹیم
?????????????????????????????????????????
Join
??
??
?Taleem-Ul-Quran Urdu?
https://telegram.me/quranlessonsj
ہے کہ خالی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ معنی یہ ہیں کہ اسے زمین سے روک دیا گیا ہے اس لئے کہ ڈبو نہ سکے ۔
مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر رات تین مرتبہ دریا اللہ تعالٰی سے اجازت طلب کرتا ہے کہ اگر حکم ہو تو تمام لوگوں کو ڈبو دوں لیکن اللہ تعالٰی اسے روک دیتا ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ ایک بزرگ مجاہد جو سمندر کی سرحد کے لشکروں میں تھے وہ جہاد کی تیاری میں وہیں رہتے تھے فرماتے ہیں ایک رات میں چوکیداری کے لئے نکلا اس رات کوئی اور پہرے پر نہ تھا میں گشت کرتا ہوا میدان میں پہنچا اور وہاں سے سمندر پر نظریں ڈالیں تو ایسا معلوم ہوا کہ گویا سمندر پہاڑ کی چوٹیوں سے ٹکرا رہا ہے بار بار یہی نظارہ میں نے دیکھا ۔ میں نے ابو صالح سے یہ واقعہ بیان کیا انہوں نے بہ روایت حضرت عمر بن خطاب اوپر والی حدیث مجھے سنائی لیکن اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام نہیں لیا گیا ۔
ان قسموں کے بعد اب جس چیز پر قسمیں کھائی گئی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ کافروں کو جو عذاب الہیہ ہونے والا ہے وہ یقینی طور پر آنے والا ہی ہے جب وہ آئے گا کسی کے بس میں اس کا روکنا نہ ہو گا۔
ابن ابی الدنیا میں ہے کہ ایک رات حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہر کی دیکھ بھال کے لئے نکلے تو ایک مکان سے کسی مسلمان کی قرآن خوانی کی آواز کان میں پڑی وہ سورہ الطور پڑھ رہے تھے ، آپ نے سواری روک لی اور کھڑے ہو کر قرآن سننے لگے جب وہ اس آیت پر پہنچے تو زبان سے نکل گیا کہ رب کعبہ کی قسم سچی ہے پھر اپنے گدھے سے اتر پڑے اور دیوار سے تکیہ لگا کر بیٹھ گئے چلنے پھرنے کی طاقت نہ رہی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب ہوش و حواس ٹھکانے آئے وہ اپنے گھر پہنچے لیکن اللہ کے کلام کی اس ڈراؤنی آیت کے اثر سے دل کی کمزوری کی یہ حالت تھی کہ مہینہ بھر تک بیمار پڑے رہے اور ایسے کہ لوگ بیمار پرسی کو آتے تھے گو کسی کو معلوم نہ تھا کہ بیماری کیا ہے ؟ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔
ایک روایت میں ہے آپ کی تلاوت میں ایک مرتبہ یہ آیت آئی اسی وقت ہچکی بندھ گئی اور اس قدر قلب پر اثر پڑا کہ بیمار ہو گئے چنانچہ بیس دن تک عیادت کی جاتی رہی ۔
اس دن آسمان تھر تھرائے گا پھٹ جائے گا چکر کھانے لگے گا پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائیں گے ہٹ جائیں گے ادھر کے ادھر ہو جائیں گے کانپ کانپ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پھر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے آخر روئی کے گالوں کی طرح ادھر ادھر اتر جائیں گے اور بےنام و نشان ہو جائیں گے اس دن ان لوگوں پر جو اس دن کو نہ مانتے تھے ویل وحسرت خرابی ہلاکت ہو گی اللہ کا عذاب فرشتوں کی مار جہنم کی آگ ان کے لئے ہو گی جو دنیا میں مشغول تھے اور دین کو ایک کھیل تماشہ مقرر کر رکھا تھا اس دن انہیں دھکے دے کر نار جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا۔
اور داروغہ جہنم ان سے کہے گا کہ یہ وہ جہنم ہے جسے تم نہیں مانتے تھے پھر مزید ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر کہیں گے اب بولو کیا یہ جادو ہے یا تم اندھے ہو ؟ جاؤ اس میں ڈوب جاؤ یہ تمہیں چاروں طرف سے گھیر لے گی اب اس کے عذاب کی تمہیں سہارا ہو یا نہ ہو ہائے وائے کرو خواہ خاموش رہو اسی میں پڑے جھلستے رہو گے کوئی ترکیب فائدہ نہ دے گی کسی طرح چھوٹ نہ سکو گے یہ اللہ کا ظلم نہیں بلکہ صرف تمہارے اعمال کا بدلہ ہے ۔
حیوان ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر روز اس میں غوطہ لگاتے ہیں اور نکل کر بدن جھاڑتے ہیں جس سے ستر ہزار قطرے جھڑتے ہیں ایک ایک قطرے سے اللہ تعالٰی ایک ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جنہیں حکم ہوتا ہے کہ وہ بیت المعمور میں جائیں اور نماز ادا کریں ، پھر وہ وہاں سے نکل آتے ہیں اب انہیں دوبارہ جانے کی نوبت نہیں آتی ،
ان کا ایک سردار ہوتا ہے جسے حکم دیا جاتا ہے کہ انہیں لے کر کسی جگہ کھڑا ہو جائے پھر وہ اللہ کی تسبیح کے بیان میں لگ جاتے ہیں ، قیامت تک ان کا یہی شغل رہتا ہے ، یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کے راوی روح بن صباح اس میں منفرد ہیں ، حافظوں کی ایک جماعت نے ان پر ایک حدیث کا انکار کیا ہے جیسے جوزجانی عقیلی حاکم وغیرہ امام حاکم ابو عبداللہ نیشاپوری اسے بالکل بے اصل بتاتے ہیں .
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ بیت المعمور کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ آسمان میں ہے اسے صراح کہا جاتا ہے کعبہ کے ٹھیک اوپر ہے جس طرح زمین کا کعبہ حرمت کی جگہ ہے اسی طرح وہ آسمانوں میں حرمت کی جگہ ہے ، ہر روز اس میں ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں لیکن جو آج گئے ہیں ان کی باری قیامت تک دوبارہ نہیں آتی کیونکہ فرشتوں کی تعداد ہی اس قدر ہے ۔
ایک روایت میں ہے یہ پوچھنے والے ابن کواء تھے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ یہ عرش کے محاز میں ہے
ایک مرفوع روایت میں ہے کہ صحابہ کو ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیت المعمور کو جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں ، فرمایا وہ آسمانی کعبہ ہے اور زمینی کعبہ کے بالکل اوپر ہے ایسا کہ اگر وہ گرے تو اسی پر گرے اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں جن کی باری قیامت تک پھر نہیں آتی ۔
حضرت ضحاک فرماتے ہیں یہ فرشتے ابلیس کے قبیلے کے جنات میں سے ہیں ، واللہ اعلم ۔
اونچی چھت سے مراد آسمان ہے جیسے اور جگہ ہے آیت (وجعلنا السماء سقفا محفوظا) ربیع بن انس فرماتے ہیں مراد اس سے عرش ہے اس لئے کہ وہ تمام مخلوق کی چھت ہے ، اس قول کی توجیہ اسطرح ہو سکتی ہے کہ مراد عام ہو ۔
آیت (بحر مسجور سے مراد وہ پانی ہے جو عرش تلے ہے جو بارش کی طرح برسے گا جس سے قیامت کے دن مردے اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے جمہور کہتے ہیں یہی دریا مراد ہیں انہیں جو (مسجور) کہا گیا ہے یہ اس لئے قیامت کے دن ان میں آگ لگا دی جائے گی۔
جیسے اور جگہ ہے آیت (واذا البحار سجرت) جبکہ دریا بھڑکا دیئے جائیں اور ان میں آگ لگ جائے گی جو پھیل کر تمام اہل محشر کو گھیر لے گی ۔
حضرت علاء بن بدر کہتے ہیں کے بھڑکتے ہوئے دریا اس لیے کہا گیا کہ نہ اس کا پانی پینے کے کام میں آئے اور نہ کھیتی کو دیا جائے یہی حال قیامت کے دن دریاؤں کا ہو گا، یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ دریا بہتا ہوا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دریا پرشدہ ادھر ادھر جاری۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسجور سے مراد فارغ یعنی خالی ہے کوئی لونڈی پانی لینے کو جائے پھر لوٹ کر کہے کہ حوض مسجور ہے اس سے مراد یہی ہے کہ خالی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ
???????????????????????????????????
?تفسیر ابن کثیر ?
? سُورَۃ ٱلذَّٰرِيَـٰت?
فرعون، عاد، ثمود اور قوم نوح کی تباہی سے سبق
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
﴿وَفِى مُوسَى إِذْ أَرْسَلْنَـهُ إِلَى فِرْعَوْنَ بِسُلْطَـنٍ مُّبِينٍ ﴾
(اور موسیٰ میں جب ہم نے اسے فرعون کے پاس ایک کھلی سند کے ساتھ بھیجا) یعنی واضح دلیل اور کھلی دلیل کے ساتھ۔
﴿فَتَوَلَّى بِرُكْنِهِ﴾
(لیکن وہ اپنے لشکر سمیت منہ پھیر لیا) یعنی سرکشی اور تکبر میں فرعون اس صریح حق سے منہ موڑ گیا جس کے ساتھ موسیٰ کو بھیجا گیا تھا۔
﴿ثَانِىَ عِطْفِهِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ﴾
(تکبر میں گردن جھکانا، اور (دوسروں کو) اللہ کی راہ سے بھٹکانا۔) (22:9) یعنی تکبر کے ساتھ حق سے منہ موڑنا،
﴿وَقَالَ سَحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ﴾
(اور کہا: جادوگر یا دیوانہ۔) یعنی فرعون نے موسیٰ سے کہا کہ جو پیغام تم میرے پاس لائے ہو، تم یا تو جادوگر ہو یا دیوانہ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا۔
﴿فَأَخَذْنَـهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَـهُمْ﴾
(پس ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑ لیا اور پھینک دیا) یعنی ہم نے انہیں پھینک دیا۔
﴿فِى الْيَمِّ﴾
(یم میں)، سمندر میں،
﴿وَهُوَ مُلِيمٌ﴾
(کیونکہ وہ قابل ملامت تھا۔) یعنی فرعون ایک منکر گنہگار اور ملامت کے لائق ضدی کافر تھا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا
﴿وَفِى عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ ﴾
(اور عاد میں جب ہم نے ان پر بانجھ ہوا بھیجی) جو ہر چیز کو تباہ کر دیتی ہے اور کچھ بھی پیدا نہیں کرتی۔ یہ ضحاک، قتادہ وغیرہ نے کہا ہے۔ اللہ کا فرمان،
﴿مَا تَذَرُ مِن شَىْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ﴾
(اس نے کچھ بھی نہیں چھوڑا جس تک پہنچا،) مطلب، ہر وہ چیز جسے ہوا تباہ کر سکتی ہے،
﴿إِلاَّ جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ﴾
(لیکن اسے بوسیدہ کھنڈرات کے ٹوٹے ہوئے پھیلاؤ میں اڑا دیا۔) مطلب، اسے بالکل بوسیدہ اور تباہ شدہ کی طرح بنا دیا۔ سعید بن المسیب اور دیگر نے اس پر تبصرہ کیا:
﴿إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ﴾
(جب ہم نے ان کے خلاف بنجر ہوا بھیجی) "جنوبی ہوائیں" البتہ صحیح میں شعبہ بن الحکم سے، مجاہد سے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا،
«نُصِرْتُ بِالصَّبَا وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُور»
(میں صبا (مشرقی ہوا) سے غالب ہوا، اور قوم عاد دبر (مغربی ہوا) سے ہلاک ہو گئی۔
﴿وَفِى ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُواْ حَتَّى حِينٍ ﴾
(اور ثمود کے بارے میں، جب ان سے کہا گیا کہ تھوڑی دیر کے لیے مزے لے لو!)، جیسا کہ اس نے ایک اور آیت میں فرمایا:
وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَـهُمْ فَاسْتَحَبُّواْ الْعَمَى عَلَى الْهُدَى فَأَخَذَتْهُمْ صَـعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ
(اور جہاں تک ثمود کا تعلق ہے تو ہم نے ان کو حق کی راہ دکھائی لیکن انہوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ترجیح دی، پس انہیں رسوا کرنے والے عذاب کی صاعقہ نے آپکڑا) (41:17) اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا:
﴿وَفِى ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُواْ حَتَّى حِينٍ - فَعَتَوْاْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ فَأَخَذَتْهُمْ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقُهُمُ يَنظُرُونَ
(اور ثمود میں، جب ان سے کہا گیا کہ تھوڑی دیر کے لیے مزے لے لو۔" لیکن انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی، تو صاعقہ نے انہیں دیکھتے ہی پکڑ لیا۔) ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ جس دوران وہ چوتھے دن کی صبح عذاب کا انتظار کر رہے تھے۔
﴿فَمَا اسْتَطَـعُواْ مِن قِيَامٍ﴾
(پھر وہ اٹھنے کے قابل نہ رہے،) وہ اس سے بچ کر بھاگنے کے قابل نہ رہے،
﴿وَمَا كَانُواْ مُنتَصِرِينَ﴾
(نہ وہ اپنی مدد کر سکے) اور نہ ہی اپنے آپ کو اس عذاب سے بچا سکے جو ان پر پڑا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا
﴿وَقَوْمَ نُوحٍ مِّن قَبْلُ﴾
(ایسے ہی تھے) ان سے پہلے قوم نوح۔
﴿إِنَّهُمْ كَانُواْ قَوْماً فَـسِقِينَ﴾
(درحقیقت یہ لوگ پرہیزگار تھے۔) ان قصوں کو ہم نے اس سے پہلے کئی دوسری سورتوں کی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
طالب دعا: بلال نصیر اینڈ ٹیم
?????????????????????????????????????????
Join
??
??
?Taleem-Ul-Quran Urdu?
https://telegram.me/quranlessonsj
?بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم?
✨باذن اللہ تعالی✨
?السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتہ
24 جولائی 2024 بدھ وار
17 محرم 1446 ہجری
?تعلیم القران
? سبق نمبر 1117
51۔ سورہ ٱلذَّٰرِيَـٰت
?مقام نزول مکہ مکرمہ
آیت 38 : 46
?بارک اللہ فیکم?
???????????????????????????????????
?تفسیر ابن کثیر ?
? سُورَۃ ٱلذَّٰرِيَـٰت?
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو تباہ کرنے کے لیے فرشتے بھیجے گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
﴿فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَهِيمَ الرَّوْعُ وَجَآءَتْهُ الْبُشْرَى يُجَـدِلُنَا فِى قَوْمِ لُوطٍ - إِنَّ إِبْرَهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ - يإِبْرَهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَـذَآ إِنَّهُ قَدْ جَآءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ ﴾
(پھر جب (ابراہیم علیہ السلام) سے خوف دور ہو گیا اور انہیں بشارت پہنچی تو وہ قوم لوط کے لیے ہم سے التجا کرنے لگے، بے شک ابراہیم بردبار، عاجزی کے ساتھ اللہ کو پکارتے تھے۔ ’’اے ابراہیم! اس کو چھوڑ دو، بے شک تمہارے رب کا حکم نکل چکا ہے، یقیناً ان کے لیے ایسا عذاب آنے والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘ (11:74-76) اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا:
﴿قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ ﴾
(ابراہیم نے) کہا: "پھر تم کس مقصد کے لیے آئے ہو، اے رسول،" یعنی تم کس مقصد کے ساتھ بھیجے گئے ہو؟
﴿قَالُواْ إِنَّآ أُرْسِلْنَآ إِلَى قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ ﴾
(انہوں نے کہا: ہم ایک ایسی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں جو مجرم ہیں)۔
﴿لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّن طِينٍ مُّسَوَّمَةً﴾
(ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر نازل کرنے کے لیے، نشان زدہ) یا لکھا ہوا،
﴿عِندَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِينَ﴾
اللہ کے پاس ان کے نام لکھے ہوئے ہیں ہر پتھر پر اس کے ساتھی کا نام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العنکبوت میں فرمایا
﴿قَالَ إِنَّ فِيهَا لُوطاً قَالُواْ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَن فِيهَا لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلاَّ امْرَأَتَهُ كَانَت مِنِ الْغَـبِرِينَ ﴾
(ابراہیم نے) کہا: لیکن اس میں لوط ہیں، انہوں نے کہا: ہم بہتر جانتے ہیں کہ وہاں کون ہے، ہم اسے اور اس کے گھر والوں کو بچا لیں گے سوائے اس کی بیوی کے، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہو گی۔ ) (29:32)، اور یہاں کہا،
﴿فَأَخْرَجْنَا مَن كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾
(پس ہم نے وہاں سے مومنین کو نکالا) وہ ہیں: لوط اور ان کا خاندان سوائے ان کی بیوی کے۔
﴿فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ ﴾
(لیکن ہم نے مسلمانوں کا کوئی گھر نہیں پایا سوائے ایک کے۔) اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَتَرَكْنَا فِيهَآ ءَايَةً لِّلَّذِينَ يَخَافُونَ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ ﴾
(اور ہم نے دردناک عذاب سے ڈرنے والوں کے لیے وہاں ایک نشانی چھوڑی ہے۔) یعنی ہم نے ان پر بھیجے گئے عذاب، عذاب اور سجل کے پتھروں کی دلیل چھوڑی۔ ہم نے ان کی رہائش گاہ کو ایک گندا، بُرا، مردہ سمندر بنا دیا۔ اس سے اہل ایمان کے لیے عبرت کا سامان ہونا چاہیے''
﴿لِّلَّذِينَ يَخَافُونَ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ﴾
(ان کے لیے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔)
طالب دعا: بلال نصیر اینڈ ٹیم
?????????????????????????????????????????
Join
??
??
?Taleem-Ul-Quran Urdu?
https://telegram.me/quranlessonsj
﴿قُتِلَ الْخَرَصُونَ ﴾
(الخراسان پر لعنت ہو)، "ملعون ہو شک کرنے والوں پر۔"
معاذ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کہا۔ اپنی ایک تقریر کے دوران آپ نے فرمایا: "شک کرنے والے تباہ ہو جائیں۔"
قتادہ نے کہا، "الخراسان۔ شک اور شبہ کے لوگ ہیں۔'' اللہ نے فرمایا۔
﴿الَّذِينَ هُمْ فِى غَمْرَةٍ سَـهُونَ ﴾
(جو سہون کے احاطہ میں ہیں،) ابن عباس رضی اللہ عنہما، اور دوسروں نے کہا؛ ’’کفر اور شک میں وہ غافل اور چنچل ہیں۔‘‘ اللہ نے فرمایا۔
﴿يَسْـَلُونَ أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ ﴾
(وہ پوچھتے ہیں: "الدین کا دن کب آئے گا) وہ انکار، ضد، شک اور شبہ میں یہ قول کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جواب دیا۔
﴿يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ ﴾
(یہ وہ دن ہوگا جب وہ آگ میں یفتنون ہوں گے) ابن عباس، مجاہد، الحسن اور کئی دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ یفتنون کا معنی عذاب ہے۔ مجاہد نے کہا: "جس طرح سونا آگ میں گھڑا جاتا ہے۔"
دوسرے لوگوں کے ایک گروہ نے بھی جن میں مجاہد، عکرمہ، ابراہیم نخعی، زید بن اسلم اور سفیان ثوری نے کہا: "وہ جلا دیے جائیں گے۔" '
﴿ذُوقُواْ فِتْنَتَكُمْ﴾
(اپنی آزمائش کا مزہ چکھو!)، مجاہد نے کہا، "تمہارا جلنا" جبکہ دوسروں نے کہا، "تیری سزا۔"
﴿هَـذَا الَّذِى كُنتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ﴾
(یہ وہی ہے جسے تم جلدی کرنے کے لیے کہتے تھے!) یہ ان کو نصیحت کرنے، عذاب دینے، رسوا کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِى جَنَّـتٍ وَعُيُونٍ ءَاخِذِينَ مَآ ءَاتَـهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ كَانُواْ قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِينِ َا يَهْجَعُونَ وَبِالاٌّسْحَـرِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ
طالب دعا: بلال نصیر اینڈ ٹیم
?????????????????????????????????????????
Join
??
??
?Taleem-Ul-Quran Urdu?
https://telegram.me/quranlessonsj
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ 🩵
▪️Telegram : @uulzl - @a3a3a
Last updated 1 month ago