بزرگ ترین چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
راه ارتباطی ما: @WatchCarton_bot
Last updated 2 weeks, 5 days ago
وانهُ لجهادٍ نصراً او إستشهاد✌️
Last updated 1 year, 1 month ago
⚫️ Collection of MTProto Proxies ⚫️
🔻Telegram🔻
Desktop v1.2.18+
macOS v3.8.3+
Android v4.8.8+
X Android v0.20.10.931+
iOS v4.8.2+
X iOS v5.0.3+
🔴 تبليغات بنرى
@Pink_Bad
🔴 تبلیغات اسپانسری
@Pink_Pad
Last updated 1 week, 2 days ago
"_ احادیث کی کتابوں میں آپ سے صرف پانچ احادیث روایت کی گئی ہیں، آپ بلند اخلاق تھیں، اطاعت اور فرماں برداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد گھر میں بیٹھنا، سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اس فرمان پر اس قدر سختی سے عمل کیا کہ پھر کبھی حج کے لیے بھی نہیں گئیں، فرمایا کرتی تھیں :- "_ میں حج اور عمرہ دونوں کر چکی ہوں، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق گھر میں بیٹھوں گی_,"
❀_ آپ بہت سخی تھیں، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بعد آپ باقی ازواج سے زیادہ سخی تھیں، مال اور دولت سے انہیں بالکل محبت نہیں تھی، جو آتا اللہ کے راستے میں خرچ کردیتی تھیں،
"_ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں درہموں سے بھری ایک تھیلی بھیجی، آپ نے تھیلی لانے والے سے پوچھا :- اس میں کیا ہے ؟ اس نے بتایا کہ درہم ہیں, آپ نے وہ تمام درہم اسی وقت تقسیم کردیئے_,
"_ آپ کی طبیعت میں مزاح بھی تھا، کبھی کبھی آپ کی باتوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑتے، ایک روز کہنے لگیں :- کل رات میں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی، آپ نے اس قدر دیر تک رکوع کیا کہ مجھے نکسیر پھوٹنے کا شبہ ہو گیا، میں دیر تک ناک پکڑے رہی _," یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے،
"_ آپ ذرا عمر رسیدہ ہو گئیں تو آپ کو خوف محسوس ہوا، کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں طلاق نہ دے دیں، اس خوف کی بنا پر آپ نے عرض کیا :- اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے طلاق نہ دیں، میں اپنی باری عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیتی ہوں_," چنانچہ آپ نے اپنی باری سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات منظور کر لی،
"_ آپ بہت عبادت گزار تھیں، آپ کے حالات کتابوں میں زیادہ نہیں ملتے، اللہ کی آپ پر کروڑوں رحمتیں ہوں _,
*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,112,*
╨─────────────────────❥
⚂⚂⚂.
▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
■ امھات المومنین ■
⚂ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ⚂
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
★ پوسٹ–22_ ★
─━━━════●■●════━━━─
❀_ آپ کا نام سودہ رضی اللہ عنہا تھا، آپ قبیلہ عامر بن موسیٰ سے تھیں، یہ قریش کا ایک مشہور قبیلہ تھا، والد کا نام زمعہ بن قیس تھا، آپ کی والدہ کا نام شموس بنت قیس تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آپ کا نکاح سکران بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوا، سکران آپ کے باپ کے چچا زاد بھائی تھے،
"_ آپ اسلام کے ابتدائی دنوں ہی میں مسلمان ہو گئیں تھیں، آپ کے شوہر نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا، حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کے وقت بھی دونوں میاں بیوی مکہ مکرمہ ہی میں رہے اور کفار کی سختیاں برداشت کرتے رہے، جب مشرکین کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا تو مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد حبشہ کی طرف ہجرت کے لئے تیار ہو گئی، ان کے ساتھ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا اور ان کے خاوند سکران رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی، کئی برس بعد جب یہ واپس لوٹے تو سکران رضی اللہ عنہ کا مکہ مکرمہ میں انتقال ہو گیا، ان کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا،
"_ ایک روایت کے مطابق سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمگین رہتے تھے، کیونکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کی بہت غم خوار تھیں، آپ کو اس قدر غمزدہ دیکھ کر حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا :- اے اللہ کے رسول ! آپ کو ایک ہمدرد ساتھی کی ضرورت ہے ؟ جواب میں آپ نے فرمایا:- ہاں !", آپ کی مرضی معلوم کرکے خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں، انہوں نے وہاں جا کر ان سے کہا :- اللہ تعالی نے آپ پر خیر و برکت کے دروازے کھول دیے ہیں_,"
"_ انہوں نے پوچھا :- وہ کیسے ؟ خولہ رضی اللہ عنہا بولیں، "_ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ میں آپ کی طرف سے شادی کا پیغام دوں _,"
"_ یہ سنتے ہی حضرت سودہ رضی اللہ عنہ نے کہا:- مجھے منظور ہے لیکن آپ میرے والد سے پوچھ لیں_,"
"_ اب خولہ رضی اللہ عنہا ان کے والد کے پاس گئیں، وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے، انہوں نے سلام کیا تو وہ بولے :- کون ہے ؟ انہوں نے اپنا نام بتایا تو وہ بولے :- خوش آمدید ! کہوں کیسے آئی ہو ؟ حضرت خولہ رضی اللہ عنہ نے کہا :- محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بیٹی کے لئے شادی کا پیغام دیا ہے _,"
"_ یہ سن کر بوڑھے باپ نے کہا :- ہاں ! محمد بہت کریم ہیں, تمہاری سہیلی کیا کہتی ہے _," خولہ بولیں :- انہیں یہ رشتہ منظور ہے _, " باپ نے کہا :- تب پھر مجھے بھی منظور ہے_,"
"_ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود وہاں تشریف لے گئے، سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ کے والد نے نکاح پڑھایا، 400 درہم مہر مقرر ہوا _,"
❀__ 10 ہجری میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج فرمایا، اس موقعے پر سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا آپ کے ساتھ تھیں، آپ بھاری جسم کی تھیں، تیز نہیں چل سکتی تھیں، اس لئے آپ سے اجازت لی کہ مزدلفہ پہلے روانہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، اس طرح آپ رضی اللہ عنہا لوگوں سے پہلے مزدلفہ کی طرف روانہ ہو گئیں،
"_ ایک روز ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھی تھیں، آپ سے پوچھا گیا :- اللہ کے رسول ! ہم میں سے پہلے کون فوت ہو گا ؟ آپ نے جواب میں فرمایا :- جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے _,"
"_ انہوں نے ان الفاظ کا ظاہری مطلب سمجھا اور آپس میں بازو ماپنے لگیں، تو سب سے بڑا اور لمبا ہاتھ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا تھا، لیکن جب سب سے پہلے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا، تو اس وقت معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ جو سب سے زیادہ سخی ہے، اس کا انتقال سب سے پہلے ہوگا _,"
"_ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے 22 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی، سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ کا حضرت سکران رضی اللہ عنہ سے ایک بیٹا پیدا ہوا تھا، ان کا نام عبدالرحمان رضی اللہ عنہ تھا، انہوں نے جنگ جلولا میں شہادت پائی، نبی کریم صلی اللہ وسلم سے آپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی،
"_ آپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی، لیکن آپ کو اس بات کا قطعاَ کوئی ملال نہیں تھا، آپ اس قدر قناعت پسند تھیں کہ صرف ایک جوڑا اپنے پاس رکھتی تھیں، اس کو دھو کر پہنتی تھیں، آپ کے دل میں اللہ کا خوف کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، بہت جلد رونے لگ جاتی تھیں، ایک بار دجال کا خیال کر کے رونے لگیں،
❀__ ایک روز حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کہا، آپ نے ارشاد فرمایا :- اے ام سلمہ ! مجھے عائشہ کے بارے میں اذیت نہ دو، اللہ کی قسم ! تم میں سے کسی کے بستر میں مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی سوائے عائشہ کے_," ( مسند احمد 6/ 293)
"_ ایک روز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے حجرہ مبارک کے دروازے پر پہنچے اور ابھی اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے والے تھے کہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اونچی آواز میں بات کرتے سنی، پس جب آپ اندر آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ کو پکڑ کر بولے :- اے ام رومان کی بیٹی ! تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز سے بات کرتی ہے _," یہ کہ کر آپ نے انہیں مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اور آپ کے درمیان میں آ گئے، جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ واپس چلے گئے، تو آپ نے فرمایا :- دیکھو میں نے تمہارے اور تمہارے باپ کے درمیان میں آ کر تمہیں کیسے بچایا _," ( نسائ، ابو داؤد، مسند احمد)
"_ ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :- آؤ عائشہ ! دوڑ لگائیں _,"
"_سیدہ آپ کے ساتھ دوڑ پڑیں اور آپ سے آگے نکل گئیں, کچھ مدت بعد ایک اور موقع پر آپ نے انہیں دوڑنے کی دعوت دی، سیدہ آپ کے ساتھ دوڑ پڑیں لیکن اس مرتبہ آپ آگے نکل گئے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- عائشہ یہ اس روز کی دوڑ کا جواب ہے _," ( ابو داؤد- حدیث نمبر 2578)
"_ ایک سفر میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بدک گیا اور وہ انہیں لے کر ایک طرف کو بھاگ نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر بے قرار ہوئے کہ آپ کے منہ سے نکل گیا :- عروساہ _," یعنی ہاے میری دلہن _,
"_ ایک مرتبہ کچھ حبشی لوگ کھیل تماشا دکھا رہے تھے، بہت سے مرد اور بچے ان کا کھیل دیکھ رہے تھے، آپ نے سیدہ سے فرمایا :- اے عائشہ ! کیا تم بھی یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہو ؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:- جی ہاں ! چنانچہ آپ نے انہیں اپنے کندھے کی اوٹ سے وہ کھیل دکھایا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا چہرہ آپ کے کندھے پر ٹکا دیا تھا، کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :- عائشہ ! تم نے دیکھ لیا_," اس پر سیّدہ بولیں :- اے اللہ کے رسول ! جلدی نہ کریں، میں ابھی اور دیکھنا چاہتی ہوں_,"
"_ جب تک کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سیر نہیں ہو گئیں، اس وقت تک آپ انہیں کھیل دکھاتے رہے _,"
"_ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا اور انہوں نے سیدہ کو سلام کیا اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی بےگناہی کے ثبوت میں قرآن کریم کی آیت نازل فرمائیں، اللہ تعالٰی کی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل ہو ،
*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,102,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
دوپہر کا وقت تھا،,*
❀_حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:-"_جب ہم لشکر میں پہنچے تو منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو بہتان لگانے کا موقع مل گیا - اس نے کہا:-- "یہ عورت کون ہے جسے صفوان ساتھ لایا ہے؟"
"_اس کے ساتھی منافق بول اٹھے:- "یہ عائشہ ہے... صفوان کے ساتھ آئی ہیں -"
"_اب یہ لوگ لگے باتیں کرنے... پھر جب لشکر مدینہ منورہ پہنچ گیا تو منافق عبداللہ بن اُبی دشمنی کی بنا پر اور اسلام سے اپنی نفرت کی بنیاد پر اس بات کو شہرت دینے لگا -
"_ امام بخاری لکھتے ہیں:-- "جب منافق اس واقعہ کا ذکر کرتے تو عبداللہ بن اُبی بڑھ چڑھ کر ان کی تائید کرتا تاکہ اس واقعہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملے -"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں::-"مدینہ منورہ آکر میں بیمار ہوگئی... میں ایک ماہ تک بیمار رہی، دوسری طرف منافق اس بات کو پھیلاتے رہے، بڑھا چڑھا کر بیان کرتے رہے، اس طرح یہ باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تک اور میرے ماں باپ تک پہنچیں، جب کہ مجھے کچھ بھی نہیں معلوم ہوسکا تھا... البتہ میں محسوس کرتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے پہلے کی طرح محبت سے پیش نہیں آتے تھے جیسا کہ پہلے بیماری کے دنوں میں میرا خیال رکھتے تھے - (دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھرانے پر منافقین کی الزام تراشی سے سخت غمزدہ تھے اس فکر ورنج کی وجہ سے گھر والوں سے اچھی طرح گھل مل بات کرنے کا موقع بھی نہ ملتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس طرزِ عمل سے میں پریشان رہنے لگی، میری بیماری کم ہوئی تو اُمّ مسطح رضی اللہ عنہا نے مجھے وہ باتیں بتائی جو لوگوں میں پھیل رہی تھیں، ام مسطح رضی اللہ عنہا نے خود اپنے بیٹے مسطح کو بھی برا بھلا کہا کہ وہ بھی اس بارے میں یہی کچھ کہتا پھرتا ہے..
"_ . یہ سنتے ہی میرا مرض لوٹ آیا، مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، بخار پھر ہوگیا... گھر آئی تو بری طرح بےچین تھی، تمام رات روتے گزری... آنسو رکتے نہیں تھے، نیند آنکھوں سے دور تھی، صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا:"کیا حال ہے؟ -"تب میں نے عرض کیا:-- "کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر ہو آؤں؟"
"_آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اجازت دے دی... دراصل میں چاہتی تھی، اس خبر کے بارے میں والدین سے پوچھوں - جب میں اپنے ماں باپ کے گھر پہنچی تو میری والدہ (ام رومان رضی اللہ عنہا) مکان کے نچلے حصے میں تھیں... جب کہ والد اوپر والے حصے میں قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے، والدہ نے مجھے دیکھا تو پوچھا:-"تم کیسے آئیں؟"
"_میں نے ان سے پورا قصہ بیان کردیا... اور اپنی والدہ سے کہا:-"اللہ آپ کو معاف فرمائے، لوگ میرے بارے میں کیا کیا کہہ رہے ہیں، لیکن آپ نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں -"
"_ اس پر میری والدہ نے کہا:-"بیٹی! تم فکر نہ کرو! اپنے آپ کو سنبھالو، دنیا کا دستور یہی ہے کہ جب کوئی خوب صورت عورت اپنے خاوند کے دل میں گھر کر لیتی ہے تو اس سے جلنے والے اس کی عیب جوئی شروع کردیتے ہیں -"
"_یہ سن کر میں نے کہا:"اللہ کی پناہ! لوگ ایسی باتیں کررہے ہیں، کیا میرے ابا جان کو بھی ان باتوں کا علم ہے -"
"_انھوں نے جواب دیا:"ہاں! انھیں بھی معلوم ہے -"
"_اب تو مارے رنج کے میرا برا حال ہوگیا، میں رونے لگی، میرے رونے کی آواز والد کے کانوں تک پہنچی تو وہ فوراً نیچے اتر آئے، انھوں نے میری والدہ سے پوچھا:"اسے کیا ہوا؟".....تو انھوں نے کہا:"اس کے بارے میں لوگ جو افواہیں پھیلا رہے ہیں، وہ اس کے کانوں تک پہنچ چکی ہیں -"
"_ اب تو والدہ بھی رونے لگیں، والد بھی رونے لگے، اس رات بھی میں روتی رہی، پوری رات سو نہ سکی، میری والدہ بھی رو رہی تھیں، والد بھی رو رہے تھے... ہمارے ساتھ گھر کے دوسرے لوگ بھی رو رہے تھے، ایسے میں ایک انصاری عورت ملنے کے لیے آگئی... میں نے اسے اندر بلالیا، ہمیں روتے دیکھ کر وہ بھی رونے لگی، یہاں تک کہ ہمارے گھر میں جو بلی تھی... وہ بھی رو رہی تھی...,
*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,75,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
⚂⚂⚂.
▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
■ امھات المومنین ■
⚂ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ⚂
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
★ پوسٹ–16_ ★
─━━━════●■●════━━━─
❀_ اب ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کی سب سے زیادہ دردناک واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہیں، آنحضرت صلی وسلم جب کسی سفر پر جاتے تو ازواج مطہرات میں قرعہ اندازی فرماتے، قرعہ اندازی میں جن کا نام نکل آتا آپ سفر میں انہیں ساتھ لے جاتے، شعبان پانچ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ وسلم غزوہ بنی مصطلق کے لئے روانہ ہوئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی، منافقوں کو اندازہ تھا کہ اس غزوے میں کوئی خوں ریز جنگ نہیں ہوگی چنانچہ ان کی اچھی خاصی تعداد اسلامی لشکر میں شامل ہو گئی، اس سے پہلے منافق لوگ اتنی بڑی تعداد میں اسلامی لشکر میں کبھی شامل نہیں ہوئے تھے _,"
"_ اس سفر میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام قرعہ نکلا تھا، لہذا آپ ساتھ تھیں، روانہ ہوتے وقت آپ نے اپنی بڑی بہن اسماء رضی اللہ عنہا کا ہار پہننے کے لیے لے لیا تھا، وہ آپ کے گلے میں تھا، ہار کی لڑیاں کمزور تھیں، بار بار ٹوٹ جاتی تھیں، اس زمانے میں پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا، اس پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے محمل میں سوار ہوتی تھیں، ڈولی کی قسم کی چیز کو محمل کہتے ہیں، آپ اس میں بیٹھ جاتیں اور محمل کو اونٹ پر رکھ دیا جاتا، اترنے کی ضرورت پیش آتی تو خادم محمل کو اٹھا کر زمین پر رکھ دیتے، اس طرح آپ محمل سے باہر نکل کر اپنی ضرورت سے فارغ ہو لیتیں _,"
"_ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر ایک جگہ لشکر نے پڑاؤ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے پچھلے پہر لشکر کو روانگی کا حکم فرما دیا، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم نہیں تھا، قافلہ کے روانہ ہونے سے کچھ دیر پہلے آپ قضاء حاجت کے لئے قافلے سے کچھ دور چلیں گئیں، فارغ ہو کر لوٹیی تو گلے پر ہاتھ رکھ کر ٹٹولا، معلوم ہوا ہار گلے میں نہیں تھا، آپ گھبراہٹ میں اس جگہ سے واپس گئیں اور ہار تلاش کرنے لگیں،
"_ بعض روایات میں ہے کہ ہار وہاں ٹوٹ کر گر گیا تھا اور اس کے دانے بکھر گئے تھے، ان دانوں کو جمع کرنے میں آپ کو دیر ہوگئی، جب آپ ہار کی تلاش میں واپس لوٹیں تھیں تو آپ کو اندازہ تھا کہ جلد لوٹ آئیں گی، اس لئے کسی کو نہ بتایا کہ وہ ہار کی تلاش میں جا رہی ہیں، نہ محمل اٹھانے والوں کو بتایا _,"
"_ ادھر لشکر روانگی کے لئے تیار تھا، لہذا سار بانو نے محمل اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا، اس زمانے میں آپ دبلی پتلی تھیں، آپ کا وزن بہت کم تھا، اس لئے محمل اٹھانے والوں کو پتہ نہ چلا کہ آپ اس میں نہیں ہیں، ان کا خیال یہی تھا کہ آپ محمل میں ہیں، اس طرح قافلہ وہاں سے آپ کے بغیر روانہ ہو گیا، آپ کو ہار کے دانے مل گئے تو آپ واپس لوٹیں اور یہ دیکھ کر پریشان ہوگیں کہ قافلہ وہاں سے جا چکا تھا، وہاں بالکل سناٹا تھا، آپ نے سوچا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گا کہ میں محمل میں نہیں ہوں تو آپ میری تلاش میں کچھ ساتھیوں کو اسی طرف بھیج دیں گے، یہ سوچ کر آپ نے چادر تانی اور ایک درخت کے نیچے لیٹ گئیں، لیٹتے ہی آپ کو نیند نے آ لیا _,"
❀_حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ ایک صحابی تھے، ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ قافے کے پیچھے رہا کرتے تھے تاکہ کسی کا کوئی سامان رہ جائے یا گر جائے تو اٹھا لیا کریں، اس روز بھی لشکر سے پیچھے تھے، چنانچہ جب یہ اس جگہ پہنچے جہاں قافلہ تھا... تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دور سے دیکھا اور خیال کیا کہ کوئی آدمی سویا ہوا ہے، نزدیک آئے تو انہوں نے آپ کو پہچان لیا،، انہوں نے نظر پڑتے ہی "انا لله وانا اليه راجعون" پڑھا،.
"_ ان کی آواز سن کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جاگ گئی، انہیں دیکھتے ہی آپ نے اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لی،
"_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "صفوان سلمی حیرت زدہ تھے کہ یہ کیا ہوا، لیکن منہ سے انہوں نے ایک لفظ نہ کہا، نہ میں نے ان سے کوئی بات کی، انہوں نے اپنی اونٹنی کو میرے قریب بٹھادیا، اور صرف اتنا کہا -"ماں! سوار ہوجایئے! "
*"_میں نے اونٹ پر سوار ہوتے وقت کہا: -"حَسْبِيَ اللّهُ وَ نِعْمَ الوَكِيْل." (اللہ تعالٰی کی ذات ہی مجھے کافی ہے اور وہی میرا بہترین سہارا ہے) پھر میرے سوار ہونے کے بعد انھوں نے اونٹ کو اٹھایا اور اس کی مہار پکڑ کر آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ لشکر میں پہنچ گئے، لشکر اس وقت نخلِ ظہیرہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور وہ
"_ یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تک بھی پہنچ گئی، آپ نے فرمایا :- اچھا ؟ عبداللہ نے ایسا کہا ہے_," حاضرین میں سے کسی نے کہا :- جی ہاں ! انہوں نے ایسا ہی کہا ہے_," یہ سن کر آپ نے فرمایا :- "_ میں نے نذر مان لی، زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے کبھی نہیں بولوں گی _,"
"_ اس کے بعد ایک مدت سے بول چال بند رکھں، پھر کچھ حضرات درمیان میں پڑے، تب کہیں جا کر بولنا شروع کیا، آپ چونکہ نذر مان چکی تھی اور نثر نذر کے ٹوٹنے پر ایک غلام آزاد کرنا پڑتا ہے، اس لیے ایک غلام آزاد کر دیا، لیکن خوف خدا کا عالم یہ تھا کہ ایک غلام آزاد کرنے کے بعد بھی بار بار اس سلسلے میں غلام آزاد کرتی رہیں کہ شاید اب خطا معاف ہو جائے، اب معاف ہو جائے _,"
❀_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ سے عمر میں چند سال بڑی تھیں لیکن ان کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بعد میں ہوئی تھی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پہلے آ گئی تھیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی تیاریوں میں حضرت عائشہ صدیقہ نے بھرپور حصہ لیا، ان کا مکان لیپا، بستر لگایا، اپنے ہاتھ سے کھجور کی چھال دھن کر تکیے بنائے، لکڑی کی الگنی تیار کی تاکہ اس پر پانی کی مشق اور کپڑے لٹکائے جائیں، آپ خود بیان کرتی ہیں :- فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیاہ سے اچھا میں نے کوئی بیاہ نہیں دیکھا _,"
"_ شادی کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جس گھر میں گئیں، اس میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں صرف ایک دیوار کا فاصلہ تھا، درمیان میں ایک دریچہ تھا، اس دریچے سے آپس میں بات چیت ہو جاتی،
"_ حدیث کی کتابوں میں کوئی صحیح واقعہ ایسا نہیں جس سے ثابت ہو کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دل آپس میں صاف نہیں تھے، احادیث سے یہی ثابت ہے کہ دونوں میں بے حد محبت اور میل ملاپ تھا_,"
"_ ایک تابعی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا_," حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- فاطمہ _,".
"_ پھر فرمایا :- میں نے فاطمہ سے زیادہ اٹھنے بیٹھنے کے طریقوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا جلتا کسی اور کو نہیں دیکھا، جب فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتیں تو آپ کھڑے ہوجاتے، ان کی پیشانی چوم لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے _," ( مسلم)
"_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:- ایک دن ہم سب بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آ گئیں، ان کی چال بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چال تھی، ذرا بھی فرق نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت عزت سے ان کو پاس بٹھا یا، پھر دبی آواز میں ان کے کان میں کچھ فرمایا، وہ سن کر رونے لگیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیقراری دیکھ کر پھر کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنسنے لگیں،
"_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے ان سے کہا :- فاطمہ ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف تم سے راز کی باتیں کہتے ہیں اور تم روتی ہو_,".
"_ پھر جب آپ صلی اللہ وسلم وہاں سے چلے گئے تو میں ان سے پوچھا :- فاطمہ ! آپ صل وسلم کیا فرما رہے تھے؟ اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بولیں :- "_میں باپ کا راز نہیں کھولوں گی _,"
"_ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو میں نے دوبارہ کہا :- فاطمہ ! میرا تم پر جو حق ہے, میں تمہیں اس کا واسطہ دیتی ہوں, اس دن کی بات مجھ سے کہہ دو_,"
"_ انہوں نے جواب دیا :- ہاں ! اب یہ ممکن ہے, میرے رونے کا سبب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جلد وفات کی اطلاع دی تھی، اس پر میں رونے لگی، پھر آپ نے فرمایا، فاطمہ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم تمام دنیا کی عورتوں سے کی سردار بنو _," ( بخاری )
"_ اس حدیث سے حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کی آپس کے محبت بھرے تعلقات ثابت ہوتے ہیں اور یہ واقعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے آخری حصے کا واقعہ ہے، اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان میں تو آپس میں ناراضگی تھی وہ بالکل غلط کہتے ہیں، اسی طرح وراثت وغیرہ کے معاملات نے ان پاک نفوس کو کوئی رنج و غیرہ نہیں پہنچایا تھا، ۔ یہ مقدس ہستیاں کیا زمین و جائیداد کے لیے جھگڑتیں، ہرگز نہیں _,
*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,69,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
"_ امام قسطلانی نے لکھا ہے :- بنی ہاشم کے بچوں کے رونے کی آوازیں رات کے سنّاٹے میں تمام شہر میں سنائی دیتی تھیں، سنگ دل اور بے رحم قریش سنتے تھے اور ہنسا کرتے تھے اور طنز کیا کرتے تھے _,"
"_ شبلی نعمانی لکھتے ہیں :- ان دنوں میں درختوں کے پتے کھا کھا کر گزر بسر کی گئی _,"
❀_ ان تمام سختیوں اور تکالیف کے باوجود مسلمان ثابت قدم رہے, ان کے قدم ذرا بھی نہ ڈگمگائے، ایک رات ہاشم ابن عمرو بن حارث تین اونٹوں پر کھانا لے کر گھاٹی میں داخل ہوگئے، یہ مسلمانوں کے ہمدرد تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، قریش کو اس کا پتہ چل گیا، انہوں نے دوسری صبح ہاشم سے باز پرس کی، اس پر انہوں نے کہا:- ٹھیک ہے آئندہ میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جو آپ کے خلاف ہو،
"_ اس کے بعد ایک رات پھر دو اونٹوں پر کھانے کا سامان لے کر گھاٹی میں پہنچ گئے، قریش کو اس کا بھی پتہ چل گیا، اس مرتبہ قریش سخت غضب ناک ہوے اور ہاشم پر حملہ کر دیا، لیکن اسی وقت ابو سفیان نے کہا :- اسے چھوڑ دو، اس نے صلہ رحمی کی ہے، رشتہ داروں کا حق پورا کرنے کے لیے ایسا کیا ہے _,"
"_ آخر اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ دیمک نے قریش کے لکھے ہوئے معاہدے کو چاٹ لیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اپنے چچا ابو طالب کو بتائی، انہوں نے آپ کی بات سن کر کہا :- ستاروں کی قسم ! تم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا _," (مشرک لوگ اس قسم کی قسمیں کھاتے تھے), اب سب نے گھاٹی سے نکلنے کا فیصلہ کیا، سب وہاں سے نکل کر مسجد حرام میں آگئے، قریش نے ان لوگوں کو دیکھا تو سمجھے کہ یہ لوگ مصیبتوں سے گھبرا کر نکل آئے ہیں تاکہ رسول اللہ سلم کو مشرکوں کے حوالے کردیں، ابو طالب نے ان سے کہا :- ہمارے اور تمہارے درمیان معاملات بہت طول پکڑ گئے ہیں، اس لئے اب تم لوگ اپنا وہ حلف نامہ لے آؤ، ممکن ہے ہمارے اور تمہارے درمیان صلح کی کوئی شکل نکل آئے _,"
"_ ابو طالب نے اصل بات بتانے کی بجائے یہ بات اس لیے کہی کہ کہیں قریش حلف نامہ سامنے لانے سے پہلے اسے دیکھ نہ لیں کیونکہ اس صورت میں وہ اس کو لے کر ہی نہ آتے، غرض وہ حلف نامہ لے آئے، انہوں اس بات میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ یہ لوگ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالے کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ تمام حلف نامہ اور معاہدے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوئے تھے، آخر وہ حلف نامہ لے آئے، ساتھ ہی کہنے لگے :- آخر تم لوگ پیچھے ہٹ گئے نا _,"
"_ اس پر ابو طالب نے کہا:- میں تمہارے پاس ایک انصاف کی بات لے کر آیا ہوں، اس میں تمہاری کوئی بےعزتی ہے نہ ہماری اور وہ بات یہ ہے کہ میرے بھتیجے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ تمہارے اس حلف نامہ پر جو تمہارے ہاتھ میں ہے اللہ تعالی نے ایک کیڑا مسلط کردیا ہے، اس کیڑے نے اس میں سے الفاظ چاٹ لیے ہیں، اگر بات اسی طرح ہے جیسے میرے بھتیجے نے بتایا ہے تو معاملہ ختم ہو جاتا ہے، لہذا تم اپنی غلط بات سے باز آ جاؤ، اگر باز نہیں آئے تو بھی خدا کی قسم جب تک ہم میں سے آخری آدمی بھی زندہ ہے ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے حوالے نہیں کریں گے اور اگر میرے بھتیجے کی بات غلط نکلی تو ہم انہیں تمہارے حوالے کر دیں گے، پھر تم چاہے انہیں قتل کرو چاہے زندہ رکھو _,"
"_ اس پر قریش نے کہا :- ہمیں تمہاری بات منظور ہے_,", اب انہوں نے عہد نامہ کھول کر دیکھا، عہد نامہ کو واقعی دیمک چاٹ چکی تھی، یہ دیکھ کر ہموہ پکار اٹھے :- یہ تمہارے بھتیجے کا جادو ہے_,"
"_ اس واقعے کے بعد ان لوگوں کا ظلم اور بڑھ گیا، البتہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دیمک والے واقعے پر شرمندہ ہوئے، انہوں نے کہا :- اب ہماری طرف سے ایسی سختی اپنے بھائیوں پر ظلم ہے_," پھر یہ لوگ گھاٹی میں پہنچے اور ان حضرات سے یوں بولے :- آپ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں آجائیں _,"
"_ چنانچہ سب لوگ اسی وقت گھاٹی سے نکل کر اپنے گھروں میں آ گئے، اس طرح تین سال بعد یہ بائیکاٹ ختم ہوا_,
*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,35,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
⚂⚂⚂.
▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
■ امھات المومنین ■
⚂ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ⚂
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
★ پوسٹ–08_ ★
─━━━════●■●════━━━─
❀__ شعب ابی طالب میں رہنے والے نہ تو تجارت کر سکتے تھے نہ مکہ معظمہ کے بازاروں میں خرید وفروخت کر سکتے تھے، باہر سے کوئی قافلہ آتا تو قریش اس کا سارا مال مہنگے داموں میں خرید لیتے تھے، ابو لہب ان تاجروں سے کہتا :- کوئی مسلمان یا بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کا کوئی شخص تم سے کچھ خریدنا چاہے تو قیمت اتنی زیادہ بتانا کہ خرید نہ سکے، اگر تمہارا مال نہ بک سکا تو میں خود سارا مال خرید لوں گا _,"
"_ سال میں چار مہینے رجب، ذیقعدہ، ذوالحج اور محرم حرمت کے مہینے تھے، ان چار مہینوں میں ان حضرات کو کچھ خرید و فروخت کا موقع ملتا تھا، لیکن آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس جو کچھ تھا، اس سے آپ دونوں غریب مسلمانوں کی مدد کرتے رہے اور اس طرح اس بائیکاٹ کے ختم ہوتے ان کی اپنی مالی حالت بہت کمزور ہو گئی، حضرت عمر بھی مختلف طریقوں سے مسلمانوں کی مدد کرتے رہتے تھے لیکن سینکڑوں لوگوں کی ضرورت پوری کرنا آسان کام نہیں تھا_,جب ان لوگوں کی پونجی بالکل ختم ہوگئی تو گھریلو چیزیں بکنے لگیں، آخری دنوں میں جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک ہانڈی اور مٹی کا پیالہ رہ گیا، گھاٹی میں رہنے والے درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے، وہ پہاڑی علاقہ تھا، وہاں درخت بھی بہت کم تھے، ان دونوں کی حالت بیان کرتے ہوئے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات انہیں اونٹ کی چمڑے کا سوکھا ہوا ٹکڑا مل گیا، انہوں نے اسے دھویا اور ابال کر تین دن تک اسی سے گزارا کیا _,"
"_یہ دنیا کی تاریخ کا ظالمانہ ترین بائیکاٹ تھا، قریش مکہ باقاعدہ نگرانی کرتے تھے کہ مکہ کا کوئی فرد چوری چھپے ان حضرات کو کھانے پینے کی کوئی چیز نہ پہنچا دے _, اصل میں قریش مکہ چاہتے تھے کہ ان حضرات کی کوئی حمایت نہ کرے، اس کے بعد ان کے لیے قریش کے دیگر خاندانوں سے اپنے اپنے مسلمان ہو جانے والے افراد کی حمایت چھڑا دینا آسان ہو جاتا اور جب تمام قبیلے مسلمانوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیتے تو قریش کے لئے مسلمانوں سے نمٹنا آسان ہوجاتا، لیکن ہوا یہ کہ ان دونوں خاندانوں نے ہر قسم کی تکالیف تو برداشت کر لی، لیکن قریش کے مقابلے میں ہار نہ مانی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غریب ساتھیوں کے مضبوطی سے ڈٹے رہنے میں کوئی فرق نہ آیا _,
❀_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ چوری چھپے سامان لے آتے تھے، ایک روز غلام کے ساتھ غلہ لا رہے تھے کہ اونٹ پر سوار ابوجہل ادھر سے آ نکلا، اس نے پکار کر کہا :- کیا تو یہ راشن بنو ہاشم کے لیے لے جا رہا ہے، خدا کی قسم ! تیرا یہ غلام وہاں غلہ نہیں لے جا سکتا، میں تمہیں سارے مکہ میں رسوا کر دوں گا کہ تم نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے_,"
"_ ابوجہل ابھی ان سے جھگڑ رہا تھا کہ بنو اسد کا سردار ابوالبختری انہیں دیکھ کر رک گیا، اس نے ابو جہل سے پوچھا :- کیا ہے, تم اس سے کیوں جھگڑ رہے ہو ؟ جواب میں ابوجہل نے کہا:- یہ بنو ہاشم کے لیے غلہ لے جا رہا ہے_," ابوالبختری نے فوراً کہا :- یہ اس کی پھوپھی کا غلہ ہے، جو اس کے پاس رکھا تھا، اب اس نے منگوایا ہے تو تو اسے کیسے روک سکتا ہے، جانے دو اسے _," نہیں میں نہیں جانے دوں گا _," ابوجہل اس سے بھی جھگڑ پڑا _, دونوں میں تیز لہجے میں بات ہونے لگی، ابوالبختری نے ابوجہل کے اونٹ کی گردن پکڑ کر جھٹکا دیا تو اونٹ بیٹھ گیا، اس نے ابو جہل کو گدی سے پکڑ کر نیچے کھینچ لیا، پھر لاتوں اور گھونسوں سے اس کی خوب مرمت کی، یہاں تک کہ قریب پڑی ایک ہڈی اٹھا کر اس کے سر پر دے ماری، اس کے سر سے خون بہنے لگا، ایسے میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ادھر سے گزرے، آپ انہیں لڑتے دیکھ کر رک گئے، انہیں رکتے دیکھ کر دونوں اپنی لڑائی سے باز آگئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک ان کی آپس کی لڑائی کی خبر نہ پہنچے،
"_ تاریخ کی کتابوں میں مصیبتوں بھرے ان تین سالوں کی بہت تفصیل بیان ہوئی ہے، ابن قیم کہتے ہیں :- بنی ہاشم کے بچے بھوک کے مارے اس قدر زور زور سے روتے تھے کہ ان کے رونے کی آوازیں گھاٹی کے باہر تک سنائی دیتی تھیں_,"
*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,30,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
✭﷽✭
✿_خلافت راشدہ_✿
▪•═════••════•▪
پوسٹ-72
─┉●┉─
┱✿__ بیعت حضرت حسن رضی اللہ عنہ _,
★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے وفات سے پہلے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ؟ جواب میں آپ نے فرمایا- میں اپنے حال میں مشغول ہوں, تم جسے پسند کرو اس کے ہاتھ پر بیعت کر لینا_," آپ کے اس جملے سے لوگوں نے خیال کیا کہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بیعت کی اجازت دی ہے، چنانچہ لوگ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، سب سے پہلے قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا، اس کے بعد دوسرے لوگ آگے آتے رہے اور بیت کرتے رہے, حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیعت لیتے وقت کہتے تھے :- میرے کہنے پر عمل کرنا، جس سے میں جنگ کروں تم بھی اس سے جنگ کرنا اور جس سے میں صلح کروں تم بھی اس سے صلح کرنا _",
"_ دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لئے امیر المومنین کا لقب اختیار کیا اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا - صلح جنگ سے بہتر ہے اور بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے خلیفہ تسلیم کر کے میرے ہاتھ پر بیعت کر لیں _,"
"_ اس موقع پر خارجیوں اور منافقوں نے یہ بات مشہور کر دی کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرنا چاہتے ہیں، اگرچہ یہ صلح یقیناً خیر کا باعث تھی مگر ان ظالموں نے گویا اسے ایک سازش کے طور پر مشہور کردیا، ساتھ ہی انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا _,"
★_ اس فتویٰ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ہلچل مچا دی، وہ دو حصوں میں بٹ گئے اور آپس میں لڑنے لگے، یہاں تک کہ کچھ لوگ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خیمے میں بھی گھس آئے اور آپ کا لباس پکڑ کر کھینچنے لگے یہاں تک کہ آپ کا لباس تار تار ہو گیا، وہ آپ کی چادر اور خیمے کی ہر چیز لوٹ کر لے گئے، ان حالات میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے قبیلہ ربیعہ اور ہمدان کو آواز دی، یہ دونوں قبیلے آپ کی مدد کو آئے اور شرپسندوں کو آپ کے پاس سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے، اس طرح شور شرابا ختم ہوگیا،اس کے بعد آپ مدائن کی طرف جا رہے تھے کہ ایک خارجی جراح بن قبیصہ نے آپ پر نیزے کا وار کیا، نیزہ آپ کی ران پر لگا، آپ کو اٹھا کر مدائن میں لایا گیا، آپ کے زخموں کا علاج کیا گیا اور آخر کار زخم ٹھیک ہوگیا،
"_ ان حالات کا جائزہ لینے کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرنے کا فیصلہ کر لیا، آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا - میں صلح کرنے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.. اگر آپ میری چند شرائط مان لیں _,
*📕 راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)*
╨─────────────────────❥
بزرگ ترین چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
راه ارتباطی ما: @WatchCarton_bot
Last updated 2 weeks, 5 days ago
وانهُ لجهادٍ نصراً او إستشهاد✌️
Last updated 1 year, 1 month ago
⚫️ Collection of MTProto Proxies ⚫️
🔻Telegram🔻
Desktop v1.2.18+
macOS v3.8.3+
Android v4.8.8+
X Android v0.20.10.931+
iOS v4.8.2+
X iOS v5.0.3+
🔴 تبليغات بنرى
@Pink_Bad
🔴 تبلیغات اسپانسری
@Pink_Pad
Last updated 1 week, 2 days ago