Last updated hace 1 año, 2 meses
وانهُ لجهادٍ نصراً او إستشهاد✌️
Last updated hace 1 año, 3 meses
بزرگ ترین چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
راه ارتباطی ما: @WatchCarton_bot
Last updated hace 3 semanas, 3 días
راہ پر لگانے کے لیے اس دن کا اور اس قسم کے دوسرے دنوں (days)کا خوب خوب استعمال ہوتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے منانے والے نوجوان اس دن کا مطلب یہ ماننے لگے ہیں کہ اس موقع پر انہیں ’’محبت‘‘ کے نام پر وہ تمام حرکتیں کرنے کی آزادی مل جاتی ہے جو تمام حالات میں ممنوع ہوا کرتی ہے، محبت کے خوشنما ظاہری عنوان کی آڑ میں اس دن شیطانی رقص عروج پر ہوتا ہے اور عفت وعصمت کی خوب خوب دھجیاں بکھیری جاتی ہیں، اور مغرب کی ظاہری تڑک بھڑک سے مرعوب اور فریب خوردہ مشرقی نوجوان تمام اخلاقی حدود وقیود کو خیرباد کہنے اور شہوانی جذبات کی تسکین کے لیے حیوانیت پر اتر آتے ہیں۔
ملک کے سنجیدہ طبقے کو غور کرنا ہوگا کہ ویلنٹائن ڈے کی شکل میں ہماری مشرقی تہذیب واقدار پر منڈلا رہے خطرے سے نوجوان نسل کو کس طرح بچایا جائے، یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری مشرقی دنیا کامسئلہ ہے، ویلنٹائن ڈے کے لیے نہ تو مسلمانوں کے یہاں کوئی گنجائش ہے نہ بقیہ مشرقی عوام کے یہاں۔ اس لیے اس تعلق سے کوئی مضبوط اور منصوبہ بند اقدام کرکے مؤثر آواز میں ملک کے عوام کو متنبہ کرنا ہوگا۔
گزشتہ کئی سالوں سے کچھ تنظیموں کی طرف سے اس ’’ڈے‘‘ کی پرزور مخالفت کی جارہی ہے جو بنیادی طور پر ایک مثبت اور حوصلہ افزا کام ہے، البتہ ان تنظیموں نے بعض جگہوں پر شدت پسندی سے کام لیا جو غیر مناسب تھا، اس کی بہر حال حمایت نہیں کی جائے گی، مگر ان کے بنیادی موقف کی تائید ضروری ہے اور ان سے طریقۂ کار پر نظر ثانی کی درخواست کی جانی چاہیے، اور یہ کہ وہ اپنی بیداری مہم کا پیغام خلوص اور محبت سے پہنچائیں۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پارکوں، ہوٹلوں، ریستورانوں اور دیگر مقامات پر ویلنٹائن ڈے کے نام پر جس کھلے پن کا مظاہرہ ہوتا ہے وہ ان تنظیموں کے شدت آمیز بیانات اور دھمکیوں کے پیش نظر نہیں ہوپاتا۔
اگر موقع کی نزاکت کو تسلیم کرنے میں کسی قاری کو ہچکچاہٹ ہو یا مذکورہ معروضات کو مبنی برمغالطہ تصور کرتا ہو تو اسے نومبر ۲۰۰۱ء کا ’’البلاغ‘‘ ممبئی پڑھنا چاہیے، اس شمارے میں ڈاکٹر کلیم ضیاء نے ’’تعلیم وتعلم‘‘ کے کالم میں ’’۔۔۔۔۔۔۔فرعون کو نہ سوجھی‘‘ کے عنوان سے بعض ان ایام (days) کا تذکرہ کیا ہے جن کے بہانے ہماری نئی نسل بالخصوص عصری تعلیم گاہوں میں نشو ونما پانے والے ہمارے جگرپاروں کو بد اخلاقی اور بے حیائی کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔
ویلنٹائن_ڈے (یوم عشاق)
اسعد اعظمی حفظہ اللہ
اگر یہ کہا جائے کہ مغربی تہذیب وتمدن اور جنسی بے راہ روی دونوں مترادف چیزیں ہیں یا لازم وملزوم ہیں تو اس میں مبالغہ نہ ہوگا، اس بے راہ روی کو اگرچہ مغرب نے ’’آزادی‘‘ کا خوشنما عنوان دینے کی کوشش کی ہے، لیکن کوئی سلیم الطبع انسان فطرتاً اس آزادی کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتا۔ اس لیے تہذیب وتمدن کے علمبرداروں نے انسانی فطرت کو مسخ کرنے اور اسے جنس زدہ فطرت میں تبدیل کرنے کے لیے مختلف وسائل واسباب کا سہارا لیا ہے۔ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ بھی انہی اسباب ووسائل کا ایک حصہ ہے۔
یہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کیا ہے؟ سالوں پہلے تک ہمارے ملک میں اس ’’ڈے ‘‘ کو منائے جانے کا کوئی تصور نہ تھا، یوں تو سال بھر میں بہت سے یادگاری ایام (Days) منائے جاتے ہیں اور چھوٹے بڑے پیمانے پر تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں لیکن فحاشی اور بے حیائی کے لیے مخصوص کیے گئے اس ’’ڈے‘‘ کو ہندوستانی معاشرے میں عام کرنے کے لیے مغربی اقدار وروایات کے محافظین نے تجارت وصنعت کو آلۂ کار بنایا، چنانچہ جہاں کارڈ بنانے والی اور مختلف قسم کے تحائف (gifts) بنانے والی کمپنیوں نے نئی نسل میں اپنی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی اس بڑے پیمانے پر تشہیر کی کہ اب ہر سال ۱۴؍فروری کو ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، پارکوں اور تفریحی مقامات پر ’’اظہار محبت‘‘ کے فحش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کا پس منظر یا اس کی تاریخ کیا ہے؟ اس بارے میں مؤرخین نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں رومی لوگ ہر سال ۱۴؍فروری کو اپنی ایک دیوی کا جشن مناتے تھے، اس وقت ان کے اسکولوں میں گرچہ مخلوط تعلیم نہیں تھی، مگر اس تیوہار کے موقع پر طلبہ وطالبات غیر اخلاقی حرکتوں کے ارتکاب کا موقع فراہم کرلیا کرتے تھے، چنانچہ لڑکیاں پرچیوں پر اپنا نام لکھ لکھ کر کسی خالی بوتل میں ڈال دیتی تھیں اور قرعہ اندازی کے طریقہ پر ہر لڑکا ایک پرچی نکالتا اور اس پرچی پر جس لڑکی کا نام ہوتا اسی لڑکی کے ساتھ وہ یہ تیوہار مناتا۔ تیسری صدی عیسوی میں ایک مرتبہ رومن امپایر نے کہیں پر فوج کشی کی، لیکن متعدد حملوں کے باوجود اسے ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا، تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ رومی فوجی اپنی بیویوں اور محبوباؤں کے ساتھ مست رہنے کی وجہ سے جمع نہیں ہوپاتے، چنانچہ بادشاہ نے ایک حکم نامہ جاری کرکے تمام پادریوں کو فوجی نوجوانوں کے عقد نکاح سے منع کردیا، تمام پادریوں نے اس حکم نامے پر عمل کیا مگر ویلنٹائن نامی پادری اس کا پابند نہ بنا بلکہ اسے ماننے سے انکار کردیا، چنانچہ اس نے خفیہ طور پر عقد ازواج کا سلسلہ جاری رکھا لیکن زیادہ دنوں تک یہ بات صیغۂ راز میں نہ رہ سکی اور اس کا پردہ فاش ہوگیا، ویلنٹائن گرفتار ہوا اور حکومت کی مخالفت کی اس پر دفعہ لگائی گئی اور پھر اسے پھانسی پر چڑھانے کا فیصلہ سنایا گیا۔ قید خانے میں قید کے دوران اس کی شناسائی جیلر کی لڑکی سے ہوئی جو تنہائی میں اس سے ملنے آتی تھی اور اسے پھول پیش کرتی۔ ویلنٹائن جو کہ ایک مذہبی رہنما تھا اپنے مذہب کی تعلیمات کو نظر انداز کرکے اس لڑکی کے عشق ومحبت کے جال میں پھنس گیا، ایک موقع پر بادشاہ نے اسے معاف کرنے کا اشارہ دیا بشرطے کہ وہ رومی معبودوں کی عبادت اختیار کرلے، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور اپنی عیسائیت پر جما رہا، چنانچہ ۱۴؍فروری ۲۰۷ء کو اسے پھانسی دے دی گئی۔
چونکہ عیسائیت پر اس نے اپنی جان قربان کردی تھی اور اس کے مقابلے میں کسی اور مذہب کو اختیار کرنے سے انکار کردیا تھا اس لیے عیسائیوں نے اسے بزرگ پادری کا رتبہ دیا اور عیسائیت پر ثابت قدم رہنے کے صلہ میں جیلر کی بیٹی سے مذہب مخالف فعل یعنی عشق ومحبت کی غلطی کو درگزر کرنے کا اعلان کیا اور ہر سال اس کی یادگار منانے کا سلسلہ شروع کیا، چنانچہ اس کو ماننے والے اس دن تحفے تحائف، سرخ پھول اور مبارکبادی کے کارڈ ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں اور اس دن کو ’’یوم عشق ومحبت‘‘ قرار دے کر اس وقت جو کچھ کیا جاتا ہے وہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
ویلنٹائن کے ساتھ عیسائی برادری کی وابستگی خالص مذہبی نوعیت کی ہے، یہ شخص محض اس لیے ان کی آنکھوں کا تارا بنا کہ اس نے اپنی عیسائیت کا سودا نہیں کیا، اگر وہ چاہتا تو رومیوں کے مذہب وعقیدے کا اقرار کرکے اپنی جان بخشی کرالیتا، لیکن اس نے اپنے مذہب کو نہ چھوڑا جس کی وجہ سے اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اہل مغرب نے بڑی چالاکی کے ساتھ ویلنٹائن کی یادگار میں منائے جانے والے اس خالص مذہبی تیوہار کو عشق ومحبت کی داستان سے جوڑ کر اسے غیر عیسائی اقوام کی دلچسپی کا سامان بنا دیا اور ان کا بھرپور استحصال کرنے لگے، آج ویلنٹائن ڈے کا منانا ترقی پسندی اور روشن خیالی کی علامت بنتا جارہا ہے، خاص طور پر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات کو اخلاقی پستی اور جنسی انارکی کی
عورت کے بارے میں مشہور ہے کہ تم اسے خوبصورت کہو وہ خوبصورت ہوتی چلی جائے گی، تم اسے اچھی کہو وہ اچھی ہوتی چلی جائے گی، تم اسے ہمدرد، رحم دل، ہنس کر قربانی دینے والی کہتے جاؤ وہ ویسی بنتی جائے گی۔
مگر جب تم اس میں عیب نکالتے ہو، چھوٹی غلطی کو بڑی بناتے ہو، اس کے لباس، کھانے اور روزمرہ کے کاموں میں عیب نکالتے ہو تو تم اسے دن بہ دن عیب دار کرتے جاؤ گے۔
??
ⓚⓐⓜⓘⓛ ⓩⓐⓘⓝ ??
https://whatsapp.com/channel/0029VabxElLFy72Geg1Tr81z
WhatsApp.com
✍️ایک جملہ | WhatsApp Channel
***✍️***ایک جملہ WhatsApp Channel. . 381 followers
Last updated hace 1 año, 2 meses
وانهُ لجهادٍ نصراً او إستشهاد✌️
Last updated hace 1 año, 3 meses
بزرگ ترین چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
راه ارتباطی ما: @WatchCarton_bot
Last updated hace 3 semanas, 3 días