پیغام انسانیت

Description
ہمارے دیگر چینلز
t.me/Payame_Insaniyat
t.me/Waqiyato_Hikayaat
We recommend to visit

Азартный телеграм Мелстроя / MELLSTROY

Last updated 1 month ago

®️ Contenido enviado, respetando todos los derechos de autor para la creadora de contenido.

? Más Canales : @TioMykeCanales
? Business Negocios : @MykeToowers

Last updated 1 year, 12 months ago

Cosplay erotic girls photo, young women. Juice hd pictures / СОЧНЫЕ КОСПЛЕЕРШИ уже ждут тебя в нашем проекте!! Здесь МНОГО ГОРЯЧИХ девушек и ГОДНЫХ косплеев!!

Купить рекламу: https://telega.in/c/anicosplay
по рекламе @vdutik
если не отвечаю @TARAKAH715

Last updated 2 years, 7 months ago

3 weeks ago

♻️Ⓜ️♻️

" حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش اور دروس و نصائح__" (٦)

عبدیت کا دامن نہ چھوٹا:
     حضرت ایوب علیہ السلام اپنی تکلیف و مصیبت میں بھی عبدیت کے تقاضے کو نہ بھولے، اگر کوئی عام انسان ہو تو وہ مصیبت و مشکل جھنجھلا جاتا ہے اور چیخ و پکار کرنے لگتا ہے، خود کو کوستا ہے، زندگی پر لعنت بھیجتا ہے، اپنے اردگرد اور قرب و جوار کو بھی صلوات سناتا ہے، شب و روز اس کی زبان شکوہ و شکایت سے نالاں رہتی ہے ؛ لیکن حضرت ایوب علیہ السلام ایک نبی ہیں، چنانچہ آپ نے پاس ادب، رب ذوالجلال کے مقام بلند کا اتنا خیال رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ : ” تو نے مجھ کو مصیبت میں ڈال دیا “ کیونکہ ان کو علم تھا کہ تکلیف و عذاب گو خدا ہی کی مخلوق ہیں، مگر شیطانی اسباب پر ظہور پزیر ہوتے ہیں، اس لئے یہ کہا: ” شیطان نے مجھ کو تکلیف و عذاب کے ساتھ چھو دیا “ یہ غایت درجہ ادب ہے، برائی اور تکلیف کی نسبت شیطان کی طرف ہونی چاہئے اور خیر کو رب ذوالجلال کی جانب منسوب کرنا چاہئے، اس کے آپ نے عرض حال کیلئے نہایت عجیب و لطیف اور بلیغ پیرایہ بیان اختیار کیا کہ:اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ،وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ. ” خدایا مجھ کو مصیبت نے آگھیرا ہے اور تو مہربانوں میں سب سے بڑا مہربان ہے “ اور جب اس نے پکارا تو خدا نے سنا اور قبول کیا، جو مال و متاع برباد ہوا اور جو اہل و عیال ہلاک ہوئے؛ خدا نے اس سے چند در چند اور زیادہ ان کو بخش دیے اور صحت و تندرستی کیلئے چشمہ جاری کر دیا کہ غسل کر کے صحت یاب ہو جائیں، قرآن مجید کا یہ بیان پڑھئے: اِرْکُضْ بِرِجْلِکَج ہٰذَا مُغْتَسَلٌم بَارِدٌ وَّشَرَابٌ ۔ وَوَہَبْنَا لَہٗ اَہْلَہٗ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَ ذِكْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ. (ص:٤٢) - - اپنا پاؤں مارو ، یہ نہانے کے لئے ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کے لئے بھی ، اور ہم نے اپنی رحمت سے اور سمجھ دار لوگوں کی عبرت کیلئے ان کو ان کے گھر والے اوران کے ساتھ ان کے برابر اور بھی عطا فرمادیئے ۔ - - اسی سورہ انبیاء میں فرمایا گیا: فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَكَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰہُ اَھْلَہٗ وَ مِثْلَھُمْ مَّعَھُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ (انبیاء:٨٤) تو ہم نے ان کی فریاد سن لی ، پھر ان کی تکلیف دور کردی ، اور ہم نے ان کو گھر والے بھی دیئے اور ان کے ساتھ ان ہی کے برابر اور لوگ بھی ، جو ہماری طرف سے خصوصی فضل و کرم تھا ، اور اس لئے کہ یہ عبادت گذار لوگوں کے لئے سبق ہوجائے ۔"
(جاری ہے___) 

✍️ محمد صابر حسین ندوی ؛

🌐 https://t.me/Paighame_Insaniyat

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

3 weeks, 1 day ago

♻️Ⓜ️♻️

" حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش اور دروس و نصائح__" (٥)

بلیغ ترین پیرایہ بیان:
        قرآن مجید مکمل معجزہ ہے، اس کی فصاحت و بلاغت کے سامنے کچھ نہیں، جس دور میں یہ کتاب نازل ہوئی اس وقت عرب کو اپنی عربیت پر بڑا گمان تھا؛ لیکن اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے ان کو چیلنج کیا اور بار بار مواقع فراہم کئے کہ قرآن کے مثل کچھ پیش کر کے دکھائیں، مگر وہ کبھی بھی اس کے برابر یا اس کے مثل نہ لا سکے؛ حتی کہ بات ایک آیت تک ان پہنچی، وہ اس سے بھی قاصر رہے، سر دست آپ قرآن مجید میں ذکر ایوب کے خاص حصوں کا ہی جائزہ لیجئے، دیکھئے کہ ان آیات میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کے واقعے کو اگرچہ بہت مختصر اور سادہ طرز میں بیان کیا گیا ہے؛ لیکن بلاغت و معانی کے لحاظ سے واقعات کے جس قدر بھی صحیح اور اہم اجزاء تھے ان کو ایسے اعجاز کے ساتھ ادا کر دیا ہے کہ سفر ایوب کے ضخیم اور طویل صحیفہ میں بھی وہ بات نظر نہیں آتی، سب سے پہلے تو اللہ تعالی نے اپنے پیارے اور حبیب بندے کو "وَاذْکُرْ عَبَدْنَا اَیُّوْبَ" (ص:٤١) ۔ یعنی میرا بندہ کہہ کر پکارا، اس لفظ کا انتخاب ہی ان کی شخصیت کو بلند و عالی بنا دیتی ہے، یہ وہی لفظ جس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بھی منتخب کیا گیا تھا، (دیکھئے سورہ بنی اسرائیل:١) اس طرح حضرت ایوب علیہ السلام کو نہایت عاجزی و انکساری اختیار کرنے والا اور فروتنی سے زندگی گزارنے والا قرار دیا، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں جس آزمائش سے گزارا گیا وہ کوئی سزا اور عذاب نہ تھا؛ بلکہ ان کی ابتلاء خاص تھی کہ ان کے مقام کو مزید بلند کیا جائے اور انسانیت کے سامنے عبدیت کی حسین ترن نظیر پیش کی جائے، اور لوگوں کو بتایا جائے کہ دیکھو! وہ دولت و ثروت اور کثرت اہل و عیال کے لحاظ سے بھی بہت خوش بخت اور فیروز مند تھا، مگر یکایک امتحان و آزمائش میں آگیا اور متاع و مال، اہل و عیال اور جسم و جان سب کو مصیبت نے گھیرا، مال و منال برباد ہوا، اہل و عیال ہلاک ہوئے اور جسم و جان کو سخت روگ لگ گیا، تب بھی اس نے نہ شکوہ کیا اور نہ شکایت؛ بلکہ صبر و شکر کے ساتھ خدائے تعالیٰ کی جناب میں صرف عرض حال کر دیا : اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ. (ص:٤١) "جب اس نے اپنے رب سے فریاد کی کہ شیطان نے مجھ کو رنج اور تکلیف پہنچائی ہے".
(جاری ہے___) 

✍️ محمد صابر حسین ندوی ؛

🌐 https://t.me/Paighame_Insaniyat

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

3 weeks, 2 days ago

♻️Ⓜ️♻️

" حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش اور دروس و نصائح__" (٤)
قرآن مجید اور ذکر ایوب :
      حضرت ایوب علیہ السلام کی شخصیت واضح ہوجانے کے بعد قرآن مجید کے مختلف بیان پر بھی غور کرنا چاہئے، اللہ تبارک و تعالی نے اپنی آخری کتاب اور سب سے سچی کتاب میں حضرت ایوب علیہ السلام کا مختصراً مگر جامع تعارف کروایا ہے اور اسی کو اعتبار بھی حاصل ہے، اس لئے کہ دیگر آسمانی کتابیں تحریف کی شکار ہوگئیں، ان کے ماننے والوں نے کتاب کے ساتھ ناروا سلوک رکھا، مَن مطابق تشریح و توضیح کی اور اپنی سوچ و فکر کو کتاب کا حصہ بھی بنا دیا، بلاشبہ ہم ان کی زندگی کے مختلف گوشوں سے گرچہ واقف نہیں اور نہ کوئی قابل اعتبار و اعتماد ذریعہ ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کی ابتدائی زندگی کے متعلق جان سکیں ؛ لیکن بذریعہ قرآن اس حصے سے واقف ہیں جو انسانیت کیلئے ہدایت اور رحمت ہے، جس لوگوں کیلئے نمونہ اور اسوہ ہے؛ کیونکہ اس خاص پہلو کو اللہ تبارک و تعالی نے خود قرآن کریم میں بیان کردیا ہے، ذیل میں بالاختصار قرآنی آیات کا مطالعہ کیجئے جن میں اللہ رب العالمین نے حضرت ایوب علیہ السلام کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے:
        سورہ انبیاء اور سورہ ص میں میں ہے:
       وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ،فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَكَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰہُ اَھْلَہٗ وَ مِثْلَھُمْ مَّعَھُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ. (انبیاء:٨٣،٨٤) " اور ایوب کا تذکرہ کیجئے ، جب اس نے اپنے پروردگار سے دُعا کی کہ مجھ پر سخت تکلیف آپڑی ہے اور آپ تمام مہربانی کرنے والوں سے بڑھ کر مہربان ہیں، تو ہم نے ان کی فریاد سن لی ، پھر ان کی تکلیف دور کردی ، اور ہم نے ان کو گھر والے بھی دیئے اور ان کے ساتھ ان ہی کے برابر اور لوگ بھی ، جو ہماری طرف سے خصوصی فضل و کرم تھا ، اور اس لئے کہ یہ عبادت گذار لوگوں کے لئے سبق ہو جائے ۔"
سورہ ص میں فرمایا گیا:
     وَاذْکُرْ عَبْدَنَا اَیُّوْبَم اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ اَنِّیْ مَسَّنِی الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ۔ اُرْکُضْ بِرِجْلِکَط ہٰذَا مُغْتَسَلٌم بَارِدٌ وَّشَرَابٌ ۔ وَوَہَبْنَا لَہٗ اَہْلَہٗ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنَّا وَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ ۔ وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّہٖ وَلَا تَحْنَثْط اِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِرًاط نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہٗ اَوَّابٌ ۔ (ص:٤١ تا ٤٣)"اور ہمارے بندے ایوب کو بھی یاد کیجئے ، جب اس نے اپنے رب سے فریاد کی کہ شیطان نے مجھ کو رنج اور تکلیف پہنچائی ہے ،   ( میں نے حکم دیا : ) اپنا پاؤں مارو ، یہ نہانے کے لئے ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کے لئے بھی ، اور ہم نے اپنی رحمت سے اور سمجھ دار لوگوں کی عبرت کے لئے ان کو ان کے گھر والے اوران کے ساتھ ان کے برابر اور بھی عطا فرمادیئے ۔ اور ( ہم نے حکم دیا کہ ) اپنے ہاتھ میں تِنکوں کا ایک مٹھا لو اور اس سے (اپنی بیوی کو ) مار لو اور قسم نہ توڑو ، ہم نے اس کو صبر کرنے والا پایا ، وہ کیا ہی اچھا بندہ تھا ، بے شک وہ بڑا لَو لگانے والا تھا ۔"
(جاری ہے___) 

✍️ محمد صابر حسین ندوی ؛

🌐 https://t.me/Paighame_Insaniyat

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

3 weeks, 4 days ago

♻️Ⓜ️♻️

" حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش اور دروس و نصائح__" (٢)

حضرت ایوب علیہ السلام کا تعارف :
       حضرت ایوب علیہ السلام اللہ کے پیغمبر تھے ، وہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بڑے صاحبزادہ اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے بڑے بھائی ’عیص‘ کی اولاد میں سے تھے، نیز آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پانچویں پشت میں تھے ، یہ فلسطین کے قریب ’ عوض ‘ نامی جگہ کے رہنے والے تھے ، بائبل میں تفصیل سے ان کا واقعہ آیا ہے ؛ بلکہ ان کے نام سے مستقل ایک صحیفہ بائبل میں شامل ہے ، توریت میں ہے کہ " عوض کی سرزمین کے رہنے والے تھے اور عوض سے متعلق علماء فرنگ کی تحقیق ہے؛ کہ یہ عرب کے شمال و مغرب میں فلسطین کی مشرقی سرحد کے قریب کا ملک تھا، زمانہ آپ کا متعین نہ ہو سکا، علماء یہود کا بیان ہے کہ آپ کی عمر ٢١٠/ سال کی ہوئی، اور آپ فرزندان یعقوب کے ہمعصر ہیں، پیغمبر ہونے کے ساتھ ہی آپ امیر کبیر بھی تھے اور کثیر الاولاد بھی، (توریت، ایوب:١/١،٣) توریت میں ہے : ” عوض کی سرزمین میں ایوب نامے ایک شخص تھا اور وہ شخص کامل اور صادق تھا، خدا سے ڈرتا اور بدی سے دور رہتا تھا، اس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں، اس کے مال میں سات ہزار بھیڑیں اور تین ہزار اونٹ اور پانچ سو جوڑے بیل اور پانچ سو گدھیاں تھیں، اور اس کے نوکر چاکر بہت تھے، ایسا کہ اہل مشرق میں ایسا دو مالدار کوئی نہ تھا۔ “ (ایوب:١/ ١، ٣، دیکھئے: تفسیر ماجدی، انبیاء: ٨٣،٨٤)
پر آزمائش زندگی
       آپ ابتدائی دور میں صاحب ثروت لوگوں میں سے تھے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی اجازت سے شیطان نے آزمائشوں میں مبتلا کردیا ، کھیتیاں جل گئیں ، مویشی مر گئے ، مکان دب گیا ، جس میں بچوں کی موت واقع ہوگئی ، نوکر چاکر دشمنوں کے ہاتھ مارے گئے ، پھوڑوں کی بیماری کچھ اس طرح مسلط ہوگئی کہ سر سے پاؤں تک زخم ہی زخم نظر آتے تھے اور ان زخموں سے کیڑے نکلتے تھے ؛ یہاں تک کہ لوگوں نے آبادی سے باہر نکال دیا ؛ لیکن اللہ کے اس صابر بندے نے کبھی اُف نہ کیا اور صبر کی تصویر بنے رہے ، پھر آخر اللہ کے حضور ﷺ پنی مصیبت کی فریاد کی اور اللہ نے اس شان سے یہ دُعا قبول فرمائی کہ آل و اولاد اور مال و دولت پہلے سے بھی بڑھ کر عنایت فرمائی اور عمر بھی خوب دی ، حکم خداوندی کے تحت حضرت جبرئیل علیہ السلام نے زمین پر پاؤں مارا ، جس سے گرم پانی کا چشمہ جاری ہوگیا ، حضرت ایوب علیہ السلام نے اس میں غسل کیا اور آناً فاناً ساری بیماری جاتی رہی ، ( قرطبی : ۱۱؍۳۲۶)، تورات کے صحیفہ ایوب میں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے ، جس پر پورا پورا بھروسہ تو نہیں کیا جاسکتا ؛ لیکن ایک اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، آزمائش کی یہ مدت بھی سال دو سال کی نہ تھی بلکہ اچھی خاصی تھی ، رسول اللہ ﷺ کے ایک ارشاد کے مطابق اٹھارہ سال تھی ، (قرطبی : ۱۱؍۳۲۷)
        مصیبت و آزمائش کے اس دور میں بیوی نے وفاداری کا حق ادا کیا اور ایک لغزش کی وجہ سے وفادار بیوی بھی آزمائش کا شکار ہوئیں ، جس کا ذکر سورۂ صٓ ، آیت نمبر : ۴۴  میں  آیا ہے ۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے جو اللہ تعالیٰ سے اپنی تکلیف کی فریاد کی ، یہ کوئی شکایت نہیں تھی کہ اسے بے صبری سمجھا جائے ؛ بلکہ یہ ایک دُعا تھی اور دُعا تو بندگی اور عبدیت کا مظہر ہوتی ہے ؛ اسی لئے حضرت ایوب علیہ السلام کی درخواست کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : " فاستجبنا لہ "(ہم نے ان کی دُعا قبول کرلی ) حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ میں یہ شبہ نہ ہونا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ  کے ارشاد کے مطابق انبیاء کے جسموں کو زمین پر حرام کردیا گیا ہے ؛ لہٰذا قبر میں زمین انبیاء کے جسم کو نہیں کھاسکتی ، ( دیکھئے : المنتقی شرح الموطا، جامع الجنائز : ۲؍ ۳۱ ، فیض القدیر للمناوی : ۲؍۸۷ ) کیوں کہ مٹی کے نہ کھانے کا تعلق وفات کے بعد سے ہے اور مقصد یہ ہے کہ ان کے جسم مٹی نہ ہوجائیں گے اور حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ بیماری کا ہے اور بیماری سے انبیاء بھی دوچار ہوتے ہیں ۔ واللہ اعلم ( دیکھئے: آسان تفسیر قرآن مجید)
(جاری ہے___) 

✍️ محمد صابر حسین ندوی ؛

🌐 https://t.me/Paighame_Insaniyat

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

3 weeks, 4 days ago

♻️Ⓜ️♻️

" حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش اور دروس و نصائح__" (١)

تمہید (١)
       دنیا میں سینکڑوں، لاکھوں انبیاء و رسل آئے، سبھوں نے اللہ کا پیغام عام کیا، ایک اللہ کی عبادت، شرک سے اجتناب، ملائکہ، جنت و جہنم اور بعث بعد الموت پر ایمان کی تلقین کرتے ہوئے لوگوں کو سمجھایا کہ دیکھو! تمہاری زندگی کا ایک مقصد ہے، تم کو یونہی پیدا نہیں کیا گیا، تم اللہ تعالی کی سب سے عظیم مخلوق، سب سے عالیشان اور شاہکار تخلیق ہو، یہ دنیا کی نیرنگی تم سے ہے، صبح و شام کی تازگی تمہارے وجود سے ہے، آسمان کے چمکتے دمکتے تارے، ستارے اور سیارے تمہارے لئے ہیں، زمین کی ساری مخلوقات، کھیت کھلیان، سبزی، پھل پھول، سمندر  ندیاں، نہر اور نالے سب تمہارے لئے مسخر کر دئے گئے ہیں؛ لیکن تم اللہ کیلئے پیدا کئے گئے ہو، تم کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ تمہاری زندگی کا ہر لمحہ رب کی رضامندی اور خوشنودی کیلئے کٹے، اس کے سامنے سربسجود ہو، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنی حیات کا مقصد اصلی بناؤ، اگر تم اس سے پھر گئے، اپنے مقاصد سے کوتاہ ہوگیے اور زندگی کے جھمیلے، اس کی کشش اور شوخی میں الجھ گئے تو پھر تمہارا انجام اچھا نہ ہوگا، بلاشبہ انسان  نسیان، بھول چوک کا مرقع ہے، چنانچہ اسے مقصد حیات بار بار یاد دلانے کیلئے اور اپنے دل کی دنیا آباد کرنے کیلئے انبیا کو بھیجا جاتا تھا، یہ انبیاء ہر زمانے میں اپنے قبیلے اور قوم کی زبان، ضرورت اور تقاضے کے مطابق تبلیغ و اشاعت کا کام کرتے تھے، اخیر میں سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا اور ان کو ساری کائنات کیلئے رحمت، اسوہ اور نمونہ بنا کر پیش کردیا گیا؛ یعنی ان کے بعد کوئی دوسرا نبی نہ آئے گا، کوئی دوسرا پیغمبر نہ ہوگا، کوئی اور وحی کا دعویدار نہ ہوگا، کسی اور کی تعلیم و تبلیغ کا اعتبار نہ ہوگا، اگر کچھ ہے تو سب صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے ملی ہوئی دینی، روحانی اور تعلیمی مشن ہے، اسی مشن اور خطوات پر انسانی زندگی کی کامیابی و فلاح ہے.
      انبیاء کو یہ مقام بلند ملا؛ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کی زندگی کوئی عام زندگی تھی، ان کیلئے اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا، رہنا سہنا بھی ویسا ہی تھا جس طرح کوئی دوسرا شخص کرتا ہے؛ بلکہ اس سے ہٹ کر انبیاء کی زندگی سب سے زیادہ آزمائش، ابتلاء اور جہد مسلسل والی تھی، یہ ان کے مشن کا حصہ تھا کہ وہ باطل طاقتوں کے سامنے ڈٹ جائیں، ناحق کارروائیوں اور غیر اسلامی اور غیر انسانی کاموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، امر بالمعروف کریں اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں، نتیجتاً پوری آبادی ان کی دشمن اور جان کے درپے ہوجاتی تھی، ہر کوئی ان کو جان سے مارنے، ان کے گھرانے کو برباد کرنے، ان کے متبعین کو تہہ تیغ کرنے اور ان کی دعوت و ارشاد کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہوتا، ان کی زندگی دشمنوں کے نرغے میں رہتی، ہر وقت باطل طاقتیں ان کو نوچ کھانے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرتیں، ان سب کے باوجود انہیں نبوی پیغام پر کاربند رہنا تھا، صرف یہی نہیں بعض انبیاء کو جسمانی آزمائش میں بھی مبتلا کیا گیا؛ یعنی انہیں بدنی تکالیف، بیماری، اذیتیں دی گئیں، رب ذوالجلال نے ان کے درجات بلند کرنے اور ان کی رعایا کے سامنے ربوبیت اور قدرت کا مظاہرہ کرنے کیلئے انہیں ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا، اگر اللہ چاہتا تو یہ انبیاء سب سے زیادہ خوش حال، خوش گوار زندگی گزارتے؛ لیکن اللہ تبارک و تعالی کی منشا صرف وہی سمجھتا اور جانتا ہے، اس کی حکمتیں اسی کے سامنے کھلتی ہیں جو عبدیت کے اعلی مقام پر فائز ہو، ہم عام انسان ہیں، بے چوں چرا حکم بجالانا اور بندگی کے تقاضوں پر کھرا اترنا ہمارا خاصہ ہے، آسمانی کتابیں شاہد ہیں کہ خصوصاً اللہ رب العالمین نے انبیاء کرام علیہم السلام کو مختلف مراحل سے گزار کر ہمارے لئے مزید انسانی زندگی کو سمجھنے کی راہ فراہم کی ہے، یوں تو سارے انبیاء کی زندگی ہمارے لئے اسوہ ہے، بالخصوص سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تو آخری نبی اور اسوہ کامل ہیں، مگر ان انبیاء میں حضرت ایوب علیہ السلام کی زندگی خصوصاً زمانہ ابتلا میں بہت سے دروس و اسباق پوشیدہ ہیں، جو انسانی معاشرہ اور ذاتی و سماجی زندگی کیلئے راہ چراغ ہے۔
(جاری ہے___) 

✍️ محمد صابر حسین ندوی ؛

🌐 https://t.me/Paighame_Insaniyat

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

3 months, 3 weeks ago

♻️Ⓜ️♻️

👈 **حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے درمیان نوک جھونک_ (آخری قسط)

واقعہ لَد ؛
      مرض وفات میں بیماری کی شدت سے غشی طاری ہو جانے پر حضرت میمونہ، حضرت ام سلمہ اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہن نے بتایا کہ حبشہ میں ایسی حالت میں عود ہندی تیل میں ملا کر دوا کے طور پر پلاتے ہیں اور اس سے مریض کو افاقہ ہو جاتا ہے اور ان کے مشورے پر رسول اکرم ﷺ کو مرضی کے خلاف وہ دوا پلا دی گئی۔ ہوش میں آتے ہی آپ ﷺ نے پہچان لیا کہ کیا ہوا اور ان دونوں خواتین کا مشورہ بھی سمجھ لیا کہ وہ دونوں حبشہ میں رہ چکی تھیں ۔ آپ ﷺ نے بطور سزا کمرے میں موجود تمام لوگوں کو وہ دوا پلوائی جو اس دوا پلانے کے حق میں تھے لیکن حضرت عباس وغیرہ بعض صحابہ کرام کو اس سے مستثنیٰ کر دیا کہ وہ شریک واقعہ نہ تھے، اس روایت کو صحیحین صحیح سند کے ساتھ نقل کیا گیا ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بیماری کے دوران ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوا پلائی حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارے سے ہمیں منع فرما رہے ہیں جیسے ہر مریض انکار کیا کرتا ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہوا تو فرمانے لگے، کیا میں نے تمہیں دوا پلانے سے منع نہیں کیا تھا؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ شاید یہ اسی طرح ہے جیسے ہر مریض انکار کیا کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھر میں اس وقت جتنے بھی موجود ہیں سب کو دوا پلاؤ ماسوائے عباس کے؛ کیونکہ یہ اس وقت موجود نہ تھے۔ (صحيح بخاری، کتاب المغازي، باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم:٥٧١٢، فتح الباری:٨/١٦٢، کتاب الطب، باب اللدود، فتح الباری:١٠/٢٠٥، صحیح مسلم، كتاب السلام، باب كراهة التداوي باللدود:٢٢١٣)
اختتامیہ
      ازواج مطہرات کے باہمی اختلاف یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ازوج کا ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کے ضمن میں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ سب وقتی جذبات کی حشر خیزی کا معاملہ تھا، کسی مستقل رنجش و حسد کا نہیں، حدیث و سیرت کی روایات میں صرف حضرت عائشہ، حضرت زینب بنت جحش اسدی، حضرت صفیہ حضرت ام سلمہ کے باہمی تعلقات کے باب میں یہ جذبات محبت بھڑکتے نظر آتے ہیں، ان کے علاوہ متعدد دوسری ازواج مطہرات تھیں جیسے حضرت سودہ ، حضرت زینب ام المساکین حضرت جویریہ ، حضرت میمونہ اور حضرت ام حبیبہ مگر ان کے باہمی تعلقات کی بابت بقول علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ ان اختلافات کا پتہ نہیں چلتا؛ لیکن حضرت سودہ بنت زمعہ کے واقعہ مغافیر میں شرکت کا اور حضرت حفصہ سے اختلاف کا واضح و ثابت ذکر ملتا ہے، وہ ایک لحاظ سے بہت اہم واقعہ ہے، اگر طرفین و فریقین کے اعتبار سے ان باہمی اختلافات کا تجزیہ کیا جائے تو اور بھی ان کا دائرہ سکڑ جائے گا؛ کیوں کہ متاخر الذکر طبقہ ازواج کے باہمی اختلافات کا تو کیا خیر ذکر، اول الذکر طبقہ سے بھی ان کی کہانی تک کا حوالہ نہیں ملتا، سوتیا چاہ کا ایسا محبت آگیں منظر کبھی آسمان محبت نے کیا دیکھا ہوگا ! رسول اکرم ﷺ کی صحبت و تربیت اور تعلیم و تزکیہ نے ان کے دلوں کو صیقل کر کے محبت و مروت سے بھر دیا تھا، اس کے کئی گنا واقعات سیرت وحدیث میں موجود ہیں؛ البتہ ان کی انسانی فطرت اور بشری کمزوری سے کبھی ان کے دلوں کے آئینہ خانوں میں گرد و غبار چلا جاتا تو فوری ہدایت محبت اور اسوہ نبوی سے اسے دور کر دیا جاتا اور پھر وہ باہم شیر و شکر ہو جاتیں۔ دراصل ان کی بے پناہ محبت رسول اکرم ﷺ ہی ان کے جذبات رشک و اختلاف کا سبب بنتی تھی اور وہی ان کو دور بھی کرتی تھی ۔ (دیکھئے: عہد نبوی ﷺ میں اختلافات: جہات، نوعیتیں اور حل: ٦٨، ٠) 
ختم شد**

✍️ محمد صابر حسین ندوی ؛

🌐 https://t.me/Paighame_Insaniyat

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

3 months, 4 weeks ago

♻️Ⓜ️♻️

👈 **حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے درمیان نوک جھونک_ (٣٠)

نماز کی امامت پر اختلاف ؛**
        حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الوفاۃ میں مبتلا ہوئے تب بھی مسجد نبوی اصحاب کو نماز پرھاتے؛ خواہ اپنے اصحاب کا سہارا لے کر ہی مسجد تک کیوں نہ آنا پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت نماز ادا کرنے کی حتی المقدور بلکہ اس سے بڑھ کر کوشش کی؛ لیکن مرض وفات میں بعض دفعہ سخت آزمائش سے گزرنا پڑا، اخیر اخیر میں آپ کی حالت ایسی نہ رہی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں نماز پڑھا سکیں، سات/ سات سربند مشکیزوں کا پانی ڈالا جاتا تھا؛ کہ افاقہ ہوجائے؛ لیکن پھر بھی صورتحال بدستور پیچیدہ رہتی، (صحیح بخاری: ١٩٨) ایسے میں جب ایک دفعہ متعدد مرتبہ کوشش کے باوجود نماز کی امامت کرنے سے قاصر پایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات سے فرمایا کہ ابوبکر کو کہیں وہ نماز کی امامت کریں، اس وقت آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے اور امی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی قریب تشریف فرما تھیں، امام بخاری نے اس روایت کو متعدد جگہ نقل کیا ہے، بعضوں میں آپ نے مخاطب کے طور پر عائشہ رضی اللہ عنہا کا نام بھی لیا ہے، اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فوری تعمیل کے بجائے اپنے والد بزرگوار کی کمزوری کا حوالہ دیا اور عرض کیا کہ وہ بہت رقیق القلب شخص ہیں، آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو اپنے آپ پر قابونہ رکھ سکیں گے؛ لہٰذا حضرت عمرؓ کو امامت کا حکم دیجئے، اس پر رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تم سب یوسف کی صواحب ( بہکانے والی عورتیں ) ہو، ابوبکر کو امامت کرنے کا حکم پہنچاؤ ۔ آخر کار حضرت ابوبکر نے آپ ﷺ کی حیات میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔ روایات واحادیث میں آتا ہے کہ آخری دن غالباً حضرت ابوبکر صدیق کی سُخ جانے کی وجہ سے ان کی عدم موجودگی میں حضرت عمرؓ نے نماز پڑھائی تھی اور وہ بھی ایک صحابی کے مشورے پر ۔ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب حد المریض أن یشھد الجماعۃ، باب اھل العلم و الفضل أحق بالامامۃ)
صواحب یوسف ؛
      اس حکم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا اپنی خلافت کا بھی اعلان فرمایا، مگر عائشہ رضی اللہ عنہا کا اختلاف ان کی فطری کمزوری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور لوگوں کی بدگمانی سے احتراز کی بنا پر تھا، ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دور رَس خاتون تھیں، وہ لوگوں کے مزاج سے اور شیطانی وساوس سے واقف تھیں، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں یہی حکم اصل تھا گرچہ کوئی کچھ بھی سمجھے، چنانچہ بالآخر حکم کی تعمیل کی گئی، اس روایت میں ایک بات صاحب یوسف یعنی یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتوں کا تذکرہ آیا ہے جو عزیز مصر کی بیوی تھی، اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے خلاف باطن کا اظہار کیا اسی طرح تمہارے دل میں بات کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کررہی ہو، اس مشابہت کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عزیز مصر کی بیوی نے خواتین مصر کی دعوت کا اہتمام کیا، بظاہر وہ ان کی مہمان نوازی کررہی تھی؛ لیکن مقصود یہ تھا کہ وہ بھی ذرا حسن یوسف کا نظارہ کرلیں؛ تاکہ مجھے ایک زر خرید غلام سے محبت کرنے میں معذور خیال کریں، وہ جس بات پر ان کو طعن و تعریض کر رہی ہیں، جان لیں کہ وہ نہایت حسین و جمیل ہے اور اس سے محبت فطری بات ہے، اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما بظاہر یہ کہہ رہی تھیں کہ ان کہ والد رقت قلبی کی وجہ سے جماعت نہیں کرواسکیں گے؛ لہٰذا یہ ذمے داری کسی اور کے سپرد کی جائے، مگر ان کا مقصود یہ تھا کہ ایسے حالات میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مصلائے نبوت پر کھڑے ہونے سے لوگ بد شگونی لیں گے، اس لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق عذر خواہی کر رہی تھیں، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے خود ایک حدیث میں اس کی وضاحت فرمائی ہے، فرمایا: میں باربار آپ سے صرف اس لئے پوچھ رہی تھی کہ مجھے یقین تھا کہ جو شخص (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں) آپ کی جگہ پر کھڑا ہو گا، لوگ اس سے کبھی محبت نہیں رکھ سکتے؛ بلکہ میرا خیال تھا کہ لوگ اس سے بدفالی لیں گے، اس لئے میں چاہتی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کا حکم نہ دیں. (صحیح بخاری، کتاب المغازي،بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ، حدیث: ٤٤٤٥) جاری

✍️ محمد صابر حسین ندوی ؛

🌐 https://t.me/Paighame_Insaniyat

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

3 months, 4 weeks ago

♻️Ⓜ️♻️

👈 **حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے درمیان نوک جھونک_ (٢٩)

واقعہ اعتکاف ؛**
       رسول اکرم ﷺ رمضان شریف کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کے لئے صحن مسجد میں خیمہ لگواتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی ایک سال خیمہ لگایا تو حضرت حفصہ نے بھی اجازت مانگی اور ان کی خبر سن کر حضرت زینب نے اپنا خیمہ لگایا۔ صحن مسجد ازواج مطہرات کے خیموں سے آراستہ ہو گیا تو رسول اکرم ﷺ کو یہ آراستگی محفل پسند نہ آئی اور تمام خیمے اکھڑ وادئے اور اس سال رمضان کے بجائے شوال میں اعتکاف فرمایا اور کسی دوسرے کو خیر لگانے کی اجازت نہیں دی،  صحیح بخاری میں یہ روایت مختلف الفاظ و پیرایہ بیان میں نقل کیا گیا ہے، اس کی ایک تفصیلی روایت اس طرح ہے:حضرت سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (مسجد میں) ایک خیمہ لگا دیتی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کے اس میں چلے جاتے تھے۔ پھر حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے خیمہ کھڑا کرنے کی (اپنے اعتکاف کیلئے ) اجازت چاہی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی اور انہوں نے ایک خیمہ کھڑا کر لیا جب زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی (اپنے لیے) ایک خیمہ کھڑا کر لیا، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی خیمے دیکھے تو فرمایا، یہ کیا ہے؟ آپ کو ان کی حقیقت کی خبر دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تم سمجھتے ہو یہ خیمے ثواب کی نیت سے کھڑے کئے گئے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ (رمضان) کا اعتکاف چھوڑ دیا اور شوال کے عشرہ کا اعتکاف کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِكَافِ/حدیث:٢٠٣٣]
محض رشک و محبت نہیں ؛
      امام بخاری نے حدیث: (٢٠٣٤)، پھر (٢٠٤١) اور اس کے بعد (٢٠٤٥) میں یہی روایت نقل کی ہے، کہیں اختصار کیا ہے تو و کہیں بعض الفاظ میں تنوع ہے، امام بخاری نے اس سے مختلف استدلالات پیش کئے ہیں، جیسے عورتوں کا اعتکاف کرنا، مسجد میں اعتکاف کرنا، اعتکاف کے دوران سے نکلنا وغیرہ، اس روایت میں ازواج کے درمیان سوتیاہ چاہ، توجہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اور ساتھ ہی ساتھ نیکی کی تمنا اور سبقت ان سب پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے، مگر خاص طور سے پورے واقعہ کے اخیر جو جملہ نقل کیا گیا ہے اس پر غور کرنا چاہئے اور اس سے اندازہ لگانا چاہئے کہ خواتین کے درمیان نسوانی غیرت کس قدر ہوسکتی ہے کہ ایک نیک عمل بھی دائرہ شبہ میں آجائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ازواج کی یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا:آلْبِرَّ أَرَدْنَ بِهَذَا، مَا أَنَا بِمُعْتَكِفٍ فَرَجَعَ - - - "بھلا کیا ان کی ثواب کی نیت ہے اب میں بھی اعتکاف نہیں کروں گا۔" (صحيح بخاری: ٢٠٤٥) یعنی اس طرح عمل جو محض دیکھا دیکھی کیا جائے مناسب نہیں ہے، عمل کا دارومدار اصلا انسان کی نیت، خلوص اور رضائے الہی پر ہے، سوکنیں عموماً خیر کا کام بھی دل کی ستھرائی کے بجائے آپسی چشمک میں کرتی ہیں تو وہ نیکی بھی غارت ہوجاتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ دیکھا کہ ایک نیک عمل کو غلط رخ پر انجام دیا جارہا ہے تو نہ صرف خود کو اس سے الگ کر لیا بلکہ تمام ازواج کے خیمے بھی اکھڑوا دئے، تاکہ سبق ہو کہ نیکی میں اس طرح کی سبقت مطلوب نہیں، چنانچہ فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ اعتدال و توازن اور اخلاص نیت کی تعلیم و حکمت نبوی پر مبنی  تھی، محض رشک و محبت میں عبادت کا نظریہ و خیال اور عمل خاصا خطر ناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الاعتکاف، باب اعتکاف النساء:٢٠٣٣- فتح الباری:٤/٣٤٩، دیکھئے: سیرت عائشہ:٥٨،٥٩) جاری

✍️ محمد صابر حسین ندوی ؛

🌐 https://t.me/Paighame_Insaniyat

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

4 months ago

تو اگر رسول اللہ ﷺ  کا اور آپ کی ازواج کا اُسوۂ و نمونہ لوگوں کے سامنے موجود نہ ہوتا تو وہ ایک خلاء محسوس کرتے ؛ اس لئے جو واقعات مسلمانوں کی سماجی اور ازدواجی زندگی میں پیش آسکتے تھے اور رسول اللہ ﷺ  اور ان کی ازواج مطہرات کی شان کے خلاف نہیں تھے ، وہ واقعات آپ ﷺ کی زندگی میں پیش آئے ، اور قرآن و حدیث میں ان کا ریکارڈ محفوظ کردیا گیا ؛ تاکہ زندگی کے ہر مرحلہ میں مسلمانوں کے لئے نورِ نبوت کی رہنمائی حاصل رہے۔ (دیکھئے: آسان تفسیر قرآن مجید) جاری

✍️ محمد صابر حسین ندوی ؛

🌐 https://t.me/Paighame_Insaniyat

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

We recommend to visit

Азартный телеграм Мелстроя / MELLSTROY

Last updated 1 month ago

®️ Contenido enviado, respetando todos los derechos de autor para la creadora de contenido.

? Más Canales : @TioMykeCanales
? Business Negocios : @MykeToowers

Last updated 1 year, 12 months ago

Cosplay erotic girls photo, young women. Juice hd pictures / СОЧНЫЕ КОСПЛЕЕРШИ уже ждут тебя в нашем проекте!! Здесь МНОГО ГОРЯЧИХ девушек и ГОДНЫХ косплеев!!

Купить рекламу: https://telega.in/c/anicosplay
по рекламе @vdutik
если не отвечаю @TARAKAH715

Last updated 2 years, 7 months ago