حیاۃ الصحابہ

Description
Advertising
We recommend to visit


‌بزرگ ترین‌ چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
‌‌
راه ارتباطی ما: @WatchCarton_bot

Last updated 6 дней, 1 час назад

وانهُ لجهادٍ نصراً او إستشهاد✌️

Last updated 1 год назад

⚫️ Collection of MTProto Proxies ⚫️

?Telegram?
Desktop v1.2.18+
macOS v3.8.3+
Android v4.8.8+
X Android v0.20.10.931+
iOS v4.8.2+
X iOS v5.0.3+


? تبليغات بنرى
@Pink_Bad

? تبلیغات اسپانسری
@Pink_Pad

Last updated 2 месяца, 3 недели назад

6 months, 2 weeks ago

#حیاۃ_الصحابہ

حضرت ابن ِمسعود ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں پر پہلی دفعہ نگاہ ڈالی تو اُن میں سے محمدﷺ کو پسند فرمایا اور انھیں اپنا رسول بنا کر بھیجا اور اُن کو اپنا علم ِخاص عطا فرمایا۔ پھر دوبارہ لوگوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی اور آپ کے لیے صحابہ ؓ کو چنا اور اُن کو اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبیﷺ کی ذمہ داری کا اٹھانے والا بنایا۔ لہٰذا جس چیز کو مؤمن (یعنی صحابۂ کرام) اچھا سمجھیں گے وہ چیز اللہ کے ہاں بھی اچھی ہوگی، اور جس چیز کو بُرا سمجھیں گے وہ چیز اللہ کے ہاں بھی بُری ہوگی

7 months ago

کہ اللہ سے ڈرو، اور امیر کی بات سنو اور مانو اگرچہ وہ حبشی غلام ہو، کیوں کہ تم میں سے میرے بعدجو بھی زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو ایسی صورت میں میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرتے رہنا اور اسے تھامے رکھنا اور دانتوں سے مضبوط پکڑے رکھنا، اور نئی نئی باتوں سے بچنا کیوں کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
حضرت عمر ؓ حضورِ اَکرمﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے رب سے اپنے بعد صحابہ(ؓ)میں ہونے والے اختلاف کے بارے میں پوچھا،تو اللہ تعالیٰ نے میرے پاس یہ وحی بھیجی کہ اے محمد !آپ کے صحابہ میرے نزدیک آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں، ہر ستارے میں نورہے، لیکن بعض ستارے دوسروں سے زیادہ روشن ہیں۔ جب صحابہ کی کسی امر کے بارے میں رائے مختلف ہوجائے تو جو آدمی اُن میں سے کسی بھی ایک کی رائے پر عمل کرلے گا وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہے۔ اور آپ نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پاجاؤگے ۔
حضرت حذیفہ ؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ میں تم میں کتنا عرصہ رہوں گا۔ اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر ؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ان دونوں کی اِقتدا کرنا، اور عمار کی سیرت اپناؤ، اور ابنِ مسعود تمہیں جو بھی بتائیں اسے سچا مانو۔
حضرت بلال بن حارث مُزَنی ؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جس نے میرے بعد میری کسی مٹی ہوئی سنت کو زندہ کیا تو جتنے لوگ اس سنت پر عمل کریں گے اُن سب کے برابر اسے اجر ملے گا اور اس سے ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔اور جس نے گمراہی کا کوئی ایسا طریقہ ایجاد کیا جس سے اللہ اور اس کے رسول کبھی راضی نہیں ہوسکتے، تو جتنے لوگ اس طریقہ پر عمل کریں گے اُن سب کے برابر اسے گناہ ہوگا اور اس سے ان لوگوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
حضرت عمرو بن عوف ؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ دِین حجاز کی طرف ایسے سمٹ آئے گا جیسے کہ سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے، اور دِین حجاز میں اپنی جگہ اس طرح ضرور بنالے گا جس طرح پہاڑی بکری(شیر کے ڈر کی وجہ سے) پہاڑی کی چوٹی پر اپنی جگہ بناتی ہے۔ دین شروع میں اجنبی تھا اور عنقریب پھر پہلے کی طرح اجنبی ہوجائے گا، لہٰذا اُن لوگوں کے لیے خوش خبری ہے جن کو دین کی وجہ سے اجنبی سمجھا جائے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو میرے بعد میری جس سنت کو لوگ بگاڑدیں یہ اس سنت کو ٹھیک کردیتے ہیں ۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اَقدسﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اے میرے بیٹے! اگر تم ہر وقت اپنے دل کی یہ کیفیت بناسکتے ہو کہ اس میں کسی کے بارے میں ذرا بھی کھوٹ نہ ہو تو ضرور ایسا کرو۔ پھر آپ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! یہ میری سنت میں سے ہے اور جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا ۔
حضرت ابن عباس ؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری اُمت کے بگڑنے کے وقت جس نے میری سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھا اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ یہ روایت بیہقی کی ہے، اور طبرانی میں یہ روایت حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ اسے ایک شہید کا ثواب ملے گا ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میر ی اُمت کے بگڑنے کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھامنے والے کو ایک شہید کا اجر ملے گا ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری اُمت کے اختلاف کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھامنے والا ہاتھ میں چنگاری لینے والے کی طرح ہوگا۔
حضرت انس ؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جومیری سنت سے اِعراض کرے اس کا میرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ روایت مسلم کی ہے۔ اور ابن عساکر میں یہ روایت حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے اور اس کے شروع میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جس نے میری سنت پر عمل کیا اس کا مجھ سے تعلق ہے۔
حضرت عائشہ ؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتی ہیں کہ جس نے سنت کو مضبوطی سے تھاما وہ جنت میں داخل ہوگا ۔
حضرت انس ؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔

…٭ ٭ ٭…
#حیاۃ_الصحابہ

7 months ago

قرآن مجید سے پہلی کتابوں میں حضورﷺ اور
صحابۂ کرام ؓ کا تذکرہ

عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓسے ملا تو میں نے اُن سے کہا کہ مجھے حضورﷺ کی وہ صفات بتائیں جو تورات میں آئی ہیں۔ انھوں نے فرمایا: بہت اچھا، خدا کی قسم !تو رات میں بھی آپ کی وہی صفات بیان ہوئی ہیں جو قرآن مجید میں ہیں ۔ (چناں چہ تورات میں ہے) اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والااور اُمیوں کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام مُتوکل رکھا ہے۔ نہ آپ سخت گو ہیں، نہ سخت دل ، نہ بازاروں میں شور کرنے والے ہیں، اور نہ آپ برُائی کا بدلہ برُائی سے دیتے ہیں، بلکہ آپ عفوو در گزر سے کام لیتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت دنیا سے اٹھائیں گے جب کہ لوگ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہہ کر ٹیڑھے دین کو سیدھا کرلیں گے۔ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اندھی آنکھوں کو اور بہرے کانوں کو اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو کھول دیں گے۔
حضرت وَہب بن مُنَبِّہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زبور میں حضرت داؤد ؑ کو یہ وحی فرمائی کہ اے داؤد! تمہارے بعد عنقریب ایک نبی آئے گا جس کا نام احمد اور محمد (ﷺ) ہوگا۔ وہ سچے اور سردار ہوں گے، میں اُن سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا اور نہ ہی وہ مجھے کبھی ناراض کریں گے۔ اور میں نے اُن کی اگلی پچھلی تمام لغزشیں کرنے سے پہلے ہی معاف کردی ہیں۔ اور آپ کی اُمت میری رحمت سے نوازی ہوئی ہے۔ میں نے اُن کو وہ نوافل عطا کیے جو انبیا کو عطا کیے اور ان پر وہ چیزیں فرض کیں جو انبیا اور رسولوں پر فرض کیں، حتیٰ کہ وہ قیامت کے دن میرے پاس اس حال میں آئیں گے کہ اُن کا نور انبیا کے نور جیسا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں تک فرمادیا کہ اے داؤد ! میں نے محمد(ﷺ) کو اور آپ کی اُمت کو تمام اُمتوں پر فضیلت دی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓنے حضرت کعب سے فرمایا کہ مجھے حضورﷺ اور آپ کی اُمت کی صفات بتائیں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی کتاب (تورات) میں اُن کی یہ صفات پاتا ہوں کہ احمدﷺ اور ان کی اُمت اللہ کی خوب تعریف
کرو تاکہ یہ سمجھ جائیں۔ اس پر بعض فرشتوں نے کہا کہ یہ تو سورہے ہیں، اور بعض نے کہا کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتا ہے۔ تب فرشتوں نے یہ مطلب بیان کیا کہ وہ گھر جنت ہے اور بلانے والے محمد ﷺ ہیں، لہٰذا جس نے محمدﷺکی اِطاعت کی اس نے اللہ کی اِطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور محمدﷺ کی وجہ سے لوگوں کی دو قسمیں ہوگئیں (جس نے آپ کی مانی اس نے اللہ کی مانی اور جنت میں جائے گا ،اور جس نے آپ کی نہ مانی اس نے اللہ کی نہ مانی اور وہ جنت میں نہیں جائے گا)۔
حضرت ابو موسیٰؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری اور اس دین کی مثال جس کو دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے، اس آدمی جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہا کہ اے میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے (دشمن کے بڑے) لشکر کو (تمہاری طرف آتے ہوئے) دیکھا ہے، میں تم کو بے غرض ہو کرڈرا رہا ہوں ،لہٰذا (یہاں سے بھاگنے میں) جلدی کرو جلدی کرو ۔ چناں چہ اس کی قوم میں سے کچھ لوگوں نے اس کی بات مان لی اور سر شام چل دیے اور آرام سے چلتے رہے اور وہ تو بچ گئے، اور اس قوم میں سے کچھ لوگوں نے اسے جھوٹا سمجھا اور وہیں ٹھہرے رہے تو دشمن کے لشکر نے ان پر صبح صبح حملہ کرکے ہلاک کردیا اور ان کو بالکل ختم کردیا۔ یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے میری بات مانی اور جو دین حق میں لے کر آیا اس پر عمل کیا ، اور ان لوگوں کی جنھوں نے میری نافرمانی کی اور جو دین حق لے کر آیا میں اس کو جھٹلایا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جو کچھ بنی اسرائیل پر آیا وہ سب کچھ میری اُمت پر ضرور آئے گا (اور دونوں میں ایسی مماثلت ہوگی) جیسے کہ دونوں جوتے ایک دوسرے کے برابر کیے جاتے ہیں، یہاںتک کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ کھلم کھلا زنا کیا ہوگاتو میری اُمت میں بھی ایسا شخص ہوگا جو اس کام کو کرے گا۔ اور بنی اسرائیل بہتّر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے میری اُمت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، اور ایک فرقہ کے علاوہ باقی تمام فرقے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: جو اس راستے پر چلے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔
حضرت عِرباض بن ساریہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضورِ اَقدس ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر اپنے چہرہ ٔاَنور کے ساتھ ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ایسا مؤثر وعظ بیان فرمایا کہ جس سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دل کانپ گئے۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا یہ وعظ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ جانے والے کا (آخری) وعظ ہوا کرتا ہے، لہٰذا آپ ہمیں کن خاص باتوں کی تاکید فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں

7 months ago

حضرت سعید بن مُسیّب کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطاب ؓ نے لوگوں کے لیے اٹھارہ باتیں مقرر کیں جو سب کی سب حکمت ودانائی کی باتیں تھی۔ انھوں نے فرمایا:

1۔ جوتمہارے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرے تم اسے اس جیسی اور کوئی سزا نھیں دے سکتے کہ تم اس کے بارے میں اللہ کی اطاعت کرو۔
2۔ اور اپنے بھائی کی بات کو کسی اچھے رخ کی طرف لے جانے کی پوری کوشش کرو۔ ہاں اگر وہ بات ہی ایسی ہو کہ اسے اچھے رخ کی طرف لے جانے کی تم کوئی صورت نہ بنا سکو تو اور بات ہے۔
3۔ اور مسلمان کی زبان سے جوبول بھی نکلا ہے اور تم اس کا کوئی بھی خیر کا مطلب نکال سکتے ہو تو اس سے برے مطلب کا گمان مت کرو۔
4۔ جو آدمی خود ایسے کام کرتاہے جس سے دوسروں کو بدگمانی کا موقع ملے تو وہ اپنے سے بدگمانی کرنے والے کو ہرگز ملامت نہ کرے۔
5۔ جو اپنے راز کو چھپائے گا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔
6۔ اور سچے بھائیوں کے ساتھ رہنے کو لازم پکڑو۔ ان کے سایہ خیر میں زندگی گزارو، کیوںکہ وُسعت اور اچھے حالات میں وہ لوگ تمہارے لیے زینت کا ذریعہ اور مصیبت میں حفاظت کا سامان ہوںگے۔
7۔ اور ہمیشہ سچ بولو چاہے سچ بولنے سے جان ہی چلی جائے۔
8۔ بے فائدہ اور بے کار کاموں میں نہ لگو۔
9. جوبات ابھی پیش نہیں آئی اس کے بارے میں مت پوچھو، کیوںکہ جو پیش آچکاہے اس کے تقاضوں سے ہی کہاں فرصت مل سکتی ہے۔
10۔ اپنی حاجت اس کے پاس نہ لے جائو جو کہ نہیں چاہتا کہ تم اس میں کامیاب ہوجائو۔
11۔ جھوٹی قسم کو ہلکانہ سمجھو ورنہ اللہ تمھیں ہلاک کردیں گے۔
12۔ بدکاروں کے ساتھ نہ رہو ورنہ تم ان سے بدکاری سیکھ لوگے۔
13۔ اپنے دشمن سے الگ رہو۔
14۔ اپنے دوست سے بھی چوکنّے رہو، لیکن اگر وہ امانت دار ہے تو پھر اس کی ضرورت نہیں۔ اور امانت دارصرف وہی ہوسکتا ہے جو اللہ سے ڈرنے والاہو۔
15۔ ؑاور قبرستان میں جاکر خشوع اختیار کرو۔
16۔ اور جب اللہ کی فرماںبرداری کا کام کرو تو عاجزی اور تواضع اختیار کرو۔
17۔ اور جب اللہ کی نافرمانی ہوجائے تو اللہ کی پناہ چاہو۔
ؓ18۔ ور اپنے تمام اُمور میں ان لوگوں سے مشورہ کیا کرو جو اللہ سے ڈرتے ہیں، کیوںکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓوئُ}
خداسے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو (اس کی عظمت کا) علم رکھتے ہیں

#حیاۃ_الصحابہ

7 months, 1 week ago

از حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی

یہ کتاب اصلاً عربی میں لکھی گئی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی عالم گیر اور دائمی، مستند اور محبوب، مذہبی اور علمی زبان ہے اور ہمیشہ رہے گی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماچکا ہے:
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ O}1
ہم نے قرآن مجید کو نازل کیا اور ہم اس کی دائمی طور پر حفاظت کرنے والے ہیں۔
کسی کتاب اور صحیفہ کی حفاظت کے وعدے میں یہ بات خود بخود شامل ہوجاتی ہے کہ وہ ہمیشہ پڑھا اور سمجھا جائے گا، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس زبان میں ہے وہ بھی زندہ اور محفوظ ہو، اور بولی اور سمجھی جاتی ہو۔ مرکز نظام الدین دہلی سے شروع ہونے والی تبلیغی دعوت و تحریک ، مصنّفِ کتاب حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کے زمانے میں حجازِ مقدس اور ممالک ِعربیہ میں پہنچنے لگی تھی اور وہاں کے اہلِ علم حضرات اس سے متأثر ہورہے تھے، اس لیے اس کتاب کا اصلاً اور ابتداء ً عربی میں تالیف کرنا مناسب اور بر محل تھا۔ چناں چہ یہ کتاب پہلی مرتبہ دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد کے عربی پریس سے طبع ہونے کے بعد اہل علم کے حلقے اور عربی ممالک میں شوق و احترام کے ساتھ لی گئی۔ پھر دمشق کے دارالقلم سے بڑے اہتمام اور حسنِ طباعت کے ساتھ شائع ہوئی اور دینی و علمی حلقوں میں قبول ہوئی اور ابھی اس کا سلسلہ جاری ہے (امید ہے کہ اس کے ابھی مزید ایڈیشن نکلیں گے)۔
لیکن اس کے ساتھ ضرورت تھی کہ برّصغیر (ہندوپاک) اور بعض اُن بیرونی ممالک کے لیے جہاں ہند وپاک کے لوگ بڑی تعداد میں اِقامت گزیں ہیں اور وہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، اس کا اردو میں سلیس اور معتبر ترجمہ شائع کیا جائے، تاکہ اُن ملکوں میں جانے والی جماعتیں اور خود وہاں کے دینی ذوق اور جذبہ رکھنے والے اور دعوتی کام میں حصہ لینے والے اس سے براہِ راست استفادہ کرسکیں، اپنی ایمانی چنگاریوں کو فروزاں اور اپنی زندگی اور معاشرت، اخلاق اور جذبات۔ نیز رجحانات کو مؤمنینِ اوّلین اور آغوشِ نبوت کے پروردہ داعیانِ دین کے نقشِ قدم پر ڈال سکیں۔
عرصہ سے اس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی لیکن ہر کام کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ چناں چہ حضرت مولانا محمد یوسف کے دیرینہ رفیق اور جانشین ، دعوت کی عظیم الشان محنت کے موجودہ امیر حضرت مولانا محمد انعام الحسن صاحب أَطَالَ اللّٰہُ بَقَائَ ہٗوَنَفَعَ بِہِ الْمُسْلِمِیْنَ کی اجازت اور اِیما سے کتابِ مذکور کے ترجمہ کا آغاز ہوا ۔اور اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت مولوی محمد احسان الحق صاحب (اُستاذ مدرسہ عربیہ رائے ونڈ)کے حصے میں رکھی تھی۔ موصوف مظاہرِ علوم سہارن پور کے فاضل، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نَوَّرَ اللّٰہُ مَرْقَدَہٗ کے مجاز اور خود تبلیغی جماعت کے مدرسۂ فکر و عمل کے تربیت یافتہ اور اسی کی آغوش کے پروردہ ہیں۔ اس لیے کہ کسی ایسی کتاب کے ترجمہ کے لیے جو کسی دعوت کی ترجمان ہو اور جذبہ و تاثیر سے معمور ہو، محض اس زبان کا جاننا جس میں وہ کتاب ہے اور اس کو اپنی زبان میں منتقل کردینے کی صلاحیت کافی نہیں، اس کے لیے خود اس جذبہ کا حامل ہونا اور ان مقاصد کا داعی ہونا بھی ضروری ہے جن کی پرورش اور تبلیغ کے لیے یہ کتاب لکھی گئی۔
الحمدللہ !کتاب کے مُترجِم میں یہ سب شرائط پائی جاتی ہیں ، وہ ذاتی اور خاندانی ، ذہنی و علمی اور باطنی و روحانی ہر طریقے پر اس دعوت و جماعت کے اصول و مقاصد سے نہ صرف متفق و متاثر ہیں، بلکہ اُن کے ترجمان وداعی بھی ہیں۔ پھر اس اردو ترجمہ پر متعدد اہل علم حضرات نے نظر ڈالی ہے اور اپنے مشوروں سے مستفید بھی کیا ہے، جن میں مفتی زین العابدین صاحب، مولانا محمد احمد صاحب انصاری، مولانا ظاہر شاہ صاحب ، مولانا نذرالرحمن صاحب، مولانا جمشید علی صاحب پاکستانی عُلمَا میں سے اور مرکز نظام الدین دہلی کے بزرگوں اورفُضَلامیں سے حضرت مولانا اِظہارالحسن صاحب کاندھلوی خاص طور پر قابل ِذکر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ یہ ترجمہ ہر طرح سے مفید و مؤثر ثابت ہوگا اور اپنے اہم و بلند مقاصد کو پورا کرے گا۔ آخر میں یہ ملحوظ رہے کہ یہ ترجمہ دینی اصطلاحات سے ناواقف عام سادہ مسلمان کی سطح کو سامنے رکھ کر کیا گیاہے، اور وہ سادہ اور عام فہم ہونے کے ساتھ مؤثر اور دل آویز ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ سے زیادہ نفع پہنچائے اور قبولیت سے نوازے۔

ابوالحسن علی ندوی
دار العلوم ندوۃ العُلمَاء لکھنؤ
۱۹؍ربیع الاول ۱۴۱۲ھ،۲۹؍ستمبر۱۹۹۱ء

7 months, 1 week ago

جمع کردیا جن کا اجماع یقیناً سخت دشوار اور مشکل ہے۔ انھوں نے نہ صرف تین ضخیم جلدوں میں صحابۂ کرام ؓ کے حالات جمع کیے اور سیرت و تاریخ اور طبقات کی کتابوں میں جو مواد منتشر تھا اس کو یکجا کردیا، بلکہ امام طحاوی کی کتاب’’ شرح معانی الآثار‘‘ کی شرح تیار کی، جو اللہ کی توفیق سے کئی ضخیم جلدوں میں ہے۔
مصنّف گرامی قدر نے رسول اللہﷺکی سیرت کے واقعات سے ابتدا کی ہے، اور ساتھ ساتھ صحابہ ؓ کے حالات بھی تحریر کیے ہیں، اور خاص طور پر دعوتی اور تربیتی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ اس طرح یہ دُعاۃ کا ایسا تذکرہ ہے جو کام کرنے والوں کے لیے زادِ راہ اور مسلمانوں کے ایمان و یقین کا سرچشمہ ہے۔
انھوں نے اس کتاب کے اندر صحابۂ کرام ؓ کے وہ حالات و واقعات درج کیے ہیں جن کا کسی ایک کتاب میں ملنا ممکن نہیں ہے، کیوں کہ یہ قصے اور حکایات مختلف حدیث کی کتابوں یا تاریخ و طبقات کے مجموعوں اور کتب ِمسانید سے حاصل کیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ ایک ایسا دائرۃ المعارف (انسا ئیکلوپیڈیا) تیار ہوگیا ہے جو اس زمانے کی تصویر سامنے رکھ دیتا ہے، جس میں صحابۂ کرام ؓ کی زندگی اُن کے اخلاق و خصائص کے تمام پہلوؤں اور باریکیوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔
واقعات و روایات کے اِستقصا اور مکمل بیان کی وجہ سے کتاب میں ایک ایسی تاثیر پیدا ہوگئی ہے جو اُن کتابوں میں نہیں پائی جاتی جو اجمال و اختصار اور معانی کے اظہارپر تصنیف کی جاتی ہیں۔ اس لیے ایک قاری اس کی وجہ سے ایمان و دعوت، سرفروشی اور فضیلت اور اخلاص و زہد کے ماحول میں وقت گذارتا ہے۔
اگر یہ صحیح ہے کہ کتاب مُؤلّف کا عکسِ جمیل اور جگر کا ٹکڑا ہوتی ہے اور جس کیفیت و معنویت، جذبہ و لگن ، روح اور تاثیر سے تصنیف کی جاتی ہے اس کی مظہر ہوتی ہے۔ تو میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب مؤثر ، طاقت ور اور کامیاب ہے ۔چوںکہ صحابۂ کرامؓکی محبت اُن کے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکی تھی اور دل و دماغ میں رچ بس گئی تھی، اس لیے مُؤلف نے اس کو حسنِ عقیدت ، جذبۂ اُلفت اور جوشِ محبت کی لایزال کیفیات کے ساتھ تحریر کیا ہے۔
مُؤلّف کی عظمت و اخلاص کے پیش نظر ا س کتاب کو کسی مقدمے کی ضرورت نہیں تھی، کیوںکہ وہ خود جہاں تک میرے علم میں ہے ایمان کی قوت، دعوت میں فنائیت اور یک سوئی کے اعتبار سے عطیۂ ربانی اور زمانے کی حسنات میں سے تھے اور ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہ ایک ایسی دینی تحریک و دعوت کی قیادت کررہے تھے جو وسعت و طاقت ، عظمت اور اثر انگیزی میں سب سے بڑی تحریک ہے ،لیکن اس ناچیز کو انھوں نے اس کے ذریعہ عزت بخشی اور اس عظیم الشان کام میں اس کا بھی حصہ ہوگیا۔تقرّب الی اللہ میں، میں نے یہ کلمات تحریر کردیے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو قبولِ عام عطا فرمائے اور بندگانِ خدا کو نفع پہنچائے۔
ابوالحسن علی ندوی( سہارن پور)
۲ ؍رجب ۱۳۷۸ھ
ترجمہ از عربی بقلم
مولانا سید عبداللہ حسنی ندوی
اکتوبر ۱۹۹۱ء

پیش لفظ
برائے اردو ترجمہ حیاۃُ الصحابہؓ

7 months, 1 week ago

تاریخ کی کتابیں یہ واقعات اور قصے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں، واقعات کے مجموعے ان سچے قصوں کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں، کیوں کہ یہ واقعات اور قصے اپنے اندر مسلمانوں کے لیے حیاتِ نو کا پیغام اور تجدید کا سامان رکھتے ہیں، اسی لیے اسلام کے اہلِ دعوت و اصلاح ان واقعات پر اپنی ہمت و توجہ صَرف کرتے رہے اور مسلمانوں کے اندر جوشِ ایمانی کو بیدار کرنے ، حمیّتِ اسلامی پیدا کرنے اور ان کی ہمتوں پر مہمیز کا کام کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔
لیکن مسلمانوں پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب وہ اس تاریخ سے بے گانہ ہوکر اس کو فراموش کربیٹھے۔ ہمارے اہل وعظ وارشاد اور اہلِ قلم و مصنّفین نے اپنی تمام تر توجہ اولیائے متأخرین کے واقعات اور اَربابِ زُہد و مشیخت کی حکایات بیان کرنے پر صَرف کردی۔ اور لوگ بھی اس پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ وعظ و ارشاد کی مجالس ، درس و تدریس کے حلقے اور اس دور کی ساری تصانیف اور کتابیں انھیں واقعات سے بھر گئیں اور سارا علمی سرمایہ صوفیائے کرام کے احوال و کرامات کی نذر ہوگیا۔
جہاںتک راقم السطور کو علم ہے صحابۂ کرام ؓ کے واقعات و حالات کا اسلامی دعوت و تربیت میں کیا مقام ہے اور اس گنج گراں مایہ کی اصلاح و تربیت کے میدان میں اہمیت، تاثیر کی افادیت اور قدروقیمت کی جانب پہلی بارمشہور داعی الی اللہ، مُصلِح کبیر حضرت مولانا محمد الیاس (المتوفّٰی۱۳۶۳ھ) کی توجہ ہوئی، جو پوری ہمت اور بلند حوصلگی کے ساتھ اس کے مطالعہ میں منہمک ہوگئی۔ میں نے اُن میں سیرتِ نبوی ﷺ اور صحابۂ ؓ کے حالات کا بے پناہ شوق پایا، وہ اپنے عقیدت مندوں اور ساتھیوں سے انھیں کی باتیں کرتے، اسی کا مذاکرہ کرتے۔ چناںچہ ہر شب مولانا محمد یوسف صاحب ؒ یہ واقعات پڑھ کر سناتے۔ وہ پوری توجہ اور عظمت کے ساتھ ہمہ تن شوق بن کر سنتے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی نشر و اشاعت کی جائے۔
ان کے بھتیجے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نَوَّرَ اللّٰہُ مَرْقَدَہُ نے ایک متوسط رسالہ صحابۂ کرام ؓ کے حالات میں تالیف کیا، جس سے حضرت مولانا محمد الیاس بہت مسرور ہوئے اور تمام کام کرنے والوں اور دعوت کے راستے میں نکلنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ و مذاکرہ ضروری قرار دیا۔ چناں چہ یہ کتاب دعوت کے کام کرنے والوں کے نصاب میں داخل ہے اور دینی حلقوں میں اس کو ایسا قبولِ عام حاصل ہے جو بہت کم کتابوں کو حاصل ہوا ہوگا۔
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کے وِصال کے بعد مولانا محمد یوسف صاحب اپنے عظیم المرتبت والد کے جانشین اور وارث ہوئے۔ دعوت کی ذمہ داریاں بھی اُن کے حصے میں آئیں، سیرتِ نبویﷺ اور حالاتِ صحابہ ؓ سے شغف بھی ورثہ میں ملا، اور دعوت کے سخت مشاغل کے باوجود سیرت و تاریخ اور طبقاتُ الصحابہ کی کتابوں کا مطالعہ اور اس کا انہماک جاری رکھا۔چناں چہ جن لوگوں کو میں جانتا ہوں اُن میں مولانا محمد یوسف صاحب جیسا صحابہ ؓ کے حالات پر نظر رکھنے والا، اُن سے زیادہ استحضار رکھنے والا، اُن سے اچھا استشہاد کرنے والا، اپنی تقریروں اور گفتگو میں اُن کے واقعات کو نگینے کی طرح جڑنے والا، وسیع النظر اور باریک بین عالم میں نے نہیں دیکھا۔ قریب قریب یہی سب واقعات اور سچے قصے اُن کی قوتِ کلام کا سرچشمہ ، اُن کی اثر انگیزی اور سحر آفرینی کا ذریعہ تھے ۔جماعتوں کو بڑی سے بڑی قربانی دینے ، بڑے سے بڑے ایثار کے لیے تیار کرنے، سخت سے سخت تکلیفیں جھیلنے اور بڑی سے بڑی مصیبت اٹھانے اور دعوت کے راستے میں سختیاں برداشت کرنے کا بہت بڑا ہتھیار تھے۔
دعوت اُن کے زمانہ میں ہندوستان سے نکل کر اسلامی ممالک اور یورپ و امریکہ ، جاپان و جزائرِ ہند تک پہنچ گئی تھی، اور ایک ایسی ضخیم کتاب کی سخت ضرورت تھی کہ جس کا مطالعہ و مذاکرہ دعوت میں لگنے والے اور بیرونی اَسفار میں جانے والے کرسکیں، تاکہ اس سے اُن کے دل و دماغ کو غذا حاصل ہو ، دینی جذبات میں تحریک ہو، دعوت کے ساتھ ان کی اِتباع کا جذبہ اور جان و مال لگادینے کا شوق بیدار ہو اور وہ ہجرت و نصرت ، فضائلِ اعمال و مکارمِ اخلاق کے لیے مہمیز کا کام کرے۔ جب کبھی وہ ان واقعات و حکایات کو پڑھیں اور سنیں تو اس میں ایسا کھوجائیں جیسے چھوٹے موٹے دریا سمندر میں کھوجاتے ہیں اور قد آور انسان پہاڑ کے سامنے پست ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ اُن کو اپنے یقین پر شبہ ہونے لگے ، اعمال نظروں میں حقیر ہوجائیں اور زندگی بے حیثیت نظر آنے لگے ،اُن کی ہمتیں بلند ہوں، دلوں میں شوق ہو اور عزم و ارادہ میں پختگی اور جوش ہو۔
اللہ تعالیٰ کی مشیّت و ارادہ سے دعوت کی عزت و فضیلت کے ماسوا، اس بلند پایہ کتاب کی تالیف کا شرف بھی حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کو ملا۔ حالاں کہ اُن کی زندگی کے مشاغل، اَسفار کی کثرت، مہمانوں کا ہجوم، وفود کی آمد اور درس و تدریس کے اشتغال کے ساتھ تصنیف و تالیف کا کوئی امکان نہ تھا، لیکن انھوں نے اللہ کی توفیق و مدد، بلند ہمتی اور قوت و عزیمت سے تصنیف و تالیف کا کام بھی انجام دیا اور اس طرح دعوت و تصنیف کو

7 months, 1 week ago

#حیاۃ_الصحابہ

نبی کریمﷺ اور صحابۂ کرام ؓکی سیرت اور تاریخ اس قوتِ ایمانی اور جوشِ اِسلامی کے طاقت ور ترین سر چشموںمیںسے ہے، جس کو اُمّتِمسلمہ نے دل کی انگیٹھیوں کوسلگانے اور دعوتِ ایمان کے شعلے کو تیز تر کرنے میں استعمال کیا ہے ۔جو مادّیت کی تیز و تُند آندھیوں سے بار بار سردہوجاتی ہیں۔ اور اگر یہ انگیٹھیاں سرد ہوجائیں تو ملّتِ اسلامیہ کے پاس قوت و تاثیر اور امتیاز کا سرمایہ نہ رہے، اور یہ لاشہ ٔ بے جان ہوکر رہ جائے جس کو زندگی اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھر رہی ہو۔
یہ اُن مردانِ خدا کی تاریخ ہے کہ جب اُن کے پاس اسلام کی دعوت پہنچی تو انھوں نے اس کو دل و جان سے قبول کیا اور اس کے تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم کردیا:
{رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا}
اور اپنا ہاتھ رسول اللہﷺکے ہاتھ میں دے دیا۔ چناں چہ اُن کے لیے اللہ کے راستے کی مشقتیں معمولی اور جان و مال کی قربانی آسان ہوگئی، حتیٰ کے اس پر اُن کا یقین محکم اور پختہ ہوگیا اور بالآخر دل و دماغ پرچھا گیا۔ غیب پر ایمان ، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ، اہل ایمان پر شفقت ، کفار پر شدت۔ نیز آخرت کو دنیا پر، ادھار کو نقد پر، غیب کو شہود پر اور ہدایت کو جہالت پر ترجیح اور ہدایتِ عامہ کے بے پناہ شوق کے عجیب و غریب و اقعات رونما ہونے لگے۔ اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لانے، مذاہب کے ظلم وجور سے اسلام کی عدل گستری میں پہنچانے، دنیا کی تنگیوں سے آخرت کی وسعتوں میں لے جانے اور دنیوی مال و متاع اور زیب و زینت سے بے پروا ہوجانے ، اللہ سے ملنے اور جنت میں داخل ہونے کے شوق کے محیّر العقول واقعات سامنے آنے لگے۔ انھوں نے اسلام کی نعمت کو ٹھکانے لگانے، اس کی برکتوں کو اَقصائے عالَم میں عام کرنے اور چپے ّچپے ّکی خاک چھاننے کے بے پایاں جذبات میں بلند ہمتی و دقیقہ رسی کے باعث اپنے گھر بار کو چھوڑا، راحت و آرام کو خیر باد کہا اور اپنی جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا، حتیٰ کہ دین کی بنیادیں قائم ہوگئیں، دل اللہ کی طرف مائل ہوگئے اور ایمان کے ایسے مبارک، جاںفزا اور طاقت ور جھونکے چلے جس سے توحید و ایمان اور عبادت و تقویٰ کی سلطنت قائم ہوگئی، جنت کا بازار گرم ہوگیا، دنیا میں ہدایت عام ہوگئی اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔

We recommend to visit


‌بزرگ ترین‌ چنل کارتووووون و انیمهه 😍
هر کارتونی بخوای اینجا دارهههه :)))))
‌‌
راه ارتباطی ما: @WatchCarton_bot

Last updated 6 дней, 1 час назад

وانهُ لجهادٍ نصراً او إستشهاد✌️

Last updated 1 год назад

⚫️ Collection of MTProto Proxies ⚫️

?Telegram?
Desktop v1.2.18+
macOS v3.8.3+
Android v4.8.8+
X Android v0.20.10.931+
iOS v4.8.2+
X iOS v5.0.3+


? تبليغات بنرى
@Pink_Bad

? تبلیغات اسپانسری
@Pink_Pad

Last updated 2 месяца, 3 недели назад